انقرہ:( اے یوایس )ترکی نے کہا ہے کہ اگر آذربائیجان نے فوجی مدد کی درخواست کی تو ترکی اپنے فوجی بھیجنے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔آذر بائیجان کو فوجی مدد کی یہ یقین دہانی ترکی کے نائب صدر فواد عکاتے نے کرائی ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے وضاحت کی ہے کہ ابھی تک باکو حکومت نے ایسی کوئی درخواست نہیں کی ہے۔
قبل ازیں آرمینیا کے وزیراعظم نے کہا ہے کہ اس مرحلے پر وہ آذر بائیجان میں ناگورنوقراباغ میں جاری مسلح تنازع کا کوئی ممکنہ فوجی حل نہیں دیکھ رہے ہیں۔ترکی نے آذربائیجان کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہار کیا ہے اور اس نے آرمینیا پر آذری سرزمین پر قبضے کا الزام عاید کیا ہے۔فواد عکاتے نے سی این این ترک سے بدھ کو ایک انٹرویو میں تنازع کے حل کے لیے مصالحت کی غرض سے فرانس ، روس اور امریکا کی قیادت میں تشکیل کردہ منسک گروپ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ممالک تنازع کا حل نہیں چاہتے ہیں اور وہ آرمینیا کی سیاسی اور عسکری طور پر مدد کررہے ہیں۔آذر بائیجان اور ناگورنو قراباغ کی آرمینیائی نسل کی انتظامیہ کے تحت فوج کے درمیان 27 ستمبر سے لڑائی جاری ہے۔اس میں اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ترکی اس لڑائی میں آذر بائیجان کی بھرپور حمایت کررہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ناگورنو قراباغ کا کنٹرول آذربائیجان کے حوالے کیا جانا چاہیے جبکہ آرمینیا اس متنازع علاقے کی آرمینیائی نسل پر مشتمل انتظامیہ کی حمایت کررہا ہے۔ترکی کا کہناہے کہ اس کو اس تنازع کے بارے میں کسی بھی بین الاقوامی فورم پر بات چیت میں کردار ادا کرنے کا حق ہونا چاہیے جبکہ آرمینیا اس کا مخالف ہے۔
آرمینیائی وزیراعظم نیکول پیشنیان نے گذشتہ ہفتے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ترکی اگر ناگورنو قراباغ کے بارے میں اپنا مو¿قف تبدیل کر لے تو اس کے فوری بعد آذر بائیجان وہاں اپنی فوجی کارروائی روک سکتا ہے۔انھوں نے ترکی پر روس کی ثالثی میں اعلان شدہ جنگ بندی کو سبوتاڑ کرنے کا الزام عاید کیا اور کہا کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے جنوبی قفقاز کے خطے تک رسائی چاہتا ہے۔واضح رہے کہ ناگورنو قراباغ کا علاقہ آذربائیجان میں واقع ہے لیکن اس پر آرمینیائی نسل کی فورسز کا 1994 سے کنٹرول چلا آرہا ہے۔
آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان 1991 میں سابق سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے اس علاقے پر کنٹرول کا تنازع چل رہا ہے۔1990 کے عشرے کے اوائل میں ناگورنو قراباغ نے آذر بائیجان کے خلاف جنگ کے بعد اپنی آزادی کا اعلان کردیا تھا۔اس لڑائی میں 30 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ تین سال کے بعد 1994 میں آرمینیا اور آذربائیجان میں جنگ بندی کا ایک سمجھوتا طے پایا تھا مگر اس کے باوجود اپریل 2016میں دوبارہ قراباغ میں لڑائی چھڑ گئی تھی۔
ترکی نے متنازع پہاڑی علاقے ناگورنو قراباغ میں اس حالیہ لڑائی سے قبل اپنے اتحادی آذربائیجان کو اس سال اسلحہ کی برآمدات میں چھے گنا اضافہ کردیا تھا اور اس کو صرف گذشتہ ماہ اس نے سات کروڑ 77 لاکھ ڈالر مالیت کے ڈرونز اور دوسرے فوجی آلات فروخت کیے تھے۔