اسلام آباد :(اے یو ایس )عمران خاان کی حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان تحریک لبیک پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے پر بھی اختلافات منظر عام پر آگئے۔ ایک طرف وزیراعظم نے ٹی ایل پی کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت دی جب کہ فوج نے اس کی سخت مخالفت کی اور آخرکار وہی ہوکہ کالعدم تنظیم کے خلاف تمام پابندیاں ختم کردی گئں اور ان کے کئی کارکنوں کو رہا کیا گیا ۔ تحریک لبیک نے ناموس رسالت پر دوہفتے پہلے ایک لانگ مارچ کا انعقاد کےاور ان کے ہزارں کارکنوں نے پنجاب کے مختلف شاہراﺅں کو بند کردیا۔
جب تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان تشددپر اترآئے اور کئی پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا تو حکومت نے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا کہ یہاں تک کہ رینجرس کو حساس علاقوں میں تعینات کیا گیا ۔ وزیراطلاعات فواد چودھری نے اس تنظیم کو دہشت گرد قراردیا اور یہاں تک کہا گیا کہ انہیں بیرونی ملکوں سے فنڈس بھی ملتے ہیں۔ لیکن جب کارروائی کا وقت آیا تو اس وقت فوجی کارروئی نے مداخلت کی اور کا جائزہ لیا کہ طاقت کے استعمال کا نتیجہ کیا نکلے گا ۔ ان کا انداہ تھا کہ درجنوں جانیں ضائع ہوجائے گی اور جس سے رائے عامہ پر لوگوں کے غلط اثرات پڑیں گے۔ حال ہی میں فوجی قیادت اور عوامی حکومت کے نمائندوں نے ممبران پارلیمنٹ کو ا س سلسلے میں تفصیلی بریفنگ دی ۔
جنرل قمر باجوا نے اس اجلاس میں کہا کہ اگر ٹی ایل پی کے خلاف طاقت کے استعمال کرنے پر اتفاق ہوجائے تو فوج اس پر مکمل عمل کرے گی لیکن ساتھ ہی انہو ںنے یہ بھی کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن اور لال مسجد مسئلے پر کتنی مشکلات کا سامنا کرناپڑا ۔ حکومت پہلے ہی سخت رویہ اختیا رکرچکی ہے وہ کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے اور ریاست کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی اجازت نہییں دے گی لیکن فوجی قیادت نے بغیر طاقت کے استعمال کا مشورہ دیا اورمشاورت کے زریعہ ہی مسئلے کو حل کرنے کا مشورہ دیا ۔ کئی دنوںتک تحریک لبیک پاکستان کے رہنماﺅں کے ساتھ بات چیت چلی اور ان کے ساتھ معاہدے کیاگیا جس کی تفصیلات ابھی منظرعام پر نہیں آئی ہیں۔