گل بخشالوی

نیب ترمیمی آرڈننس 2019ءسے متعلق وزیر اعظم پاکستان عمران خا ن نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کاروباری شخصیات کو یقین دلایا ہے کہ نئے آرڈیننس کے ذریعے پاکستان کی تاجربرادری کو نیب سے محفوظ کردیا گیا ہے تقریب میں تشریف فرما میرے کچھ دوست بھی خوش ہوں گے ہم مانتے ہیں کہ نیب کادائرئہ اختیار پبلک آفس ہولڈرکی سکیورٹی کیلئے محدود کردیا گیا ہے ۔بزنس کمیونٹی کی سکیرونٹی کیلئے ایف بی آر جیسے فورم اور قومی عدالتیں موجود ہیں ۔

وزیر اعظم پاکستان کے نئے آرڈینس کوجہاں پاکستان میں تاجر برادری کی حوصلہ افزائی کی سوچ کے حامل لوگوں نے کو سراہا ہے وہاں نے مشترکہ طور پر نئے آرڈیننس کو عمران خان کی اقرباءپروری قرار دے کر نہ صرف مسترد کردیا ہے بلکہ سپریم کورٹ میں نئے آرڈیننس کی منصوحی کیلئے درخواست دائر کردی ہے ۔قومی خوشحالی اور شاہراہِ ترقی پر رواں دواں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی قومی اصلاحات سے پریشان اپوزیشن کے اس اقدام سے نئے آرڈیننس سے مستفید ہونےوالی بزنس کمیونٹی کی آنکھیں بھی کھل گئی ہوں گی کہ وزیر اعظم پاکستان کی سوچ کیا ہے اور وطن عزیز کی تعمیر وترقی کیلئے کیا کیا اقدامات کررہے ہیں یہ ایسے اقدامات ہیں جنہیںسابق حکمرانوں کو سوچنے کی توفیق تک نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی اس لےے کہ اُن کو قوم سے نہیں خودپرستی سے محبت تھی اُن کی سوچ ذات کے دائرے تک محدود تھی گزشتہ کل کی حکمرانی پر شرمندہ ہونے کی بجائے وہ اُلٹاچور کوتوال کو ڈانٹنے کی سوچ سے قوم کے باشعور طبقہ میں اپنے رہے سہے سیاسی مقام سے بھی گررہے ہیں جب کہ عمران خان کی سوچ کو قومی سطح پر تقویت مل رہی ہے اگر یہ آرڈیننس برقرار رہتا ہے تو بھی عمران خان کی جیت ہے اگر سپریم کورٹ اسے منسوخ کرتی ہے تو بھی عمران خان کی جیت ہے اس لےے کہ نئے آرڈیننس سے مستفید ہونیوالے تاجر ضروری نہیں کہ تحریک انصاف کے ووٹرہوں نئے آرڈیننس سے اگر آج وہ عمران خان سے خوش ہیں تو آرڈیننس کی منسوخی پر وہ لوگ جو اپوزیشن کے ساتھی ہیں وہ بھی ناراض ہوں گے اس لےے کہ حکومت وقت نے ان کے تحفظات پر اُن کا ساتھ دیا لیکن اپوزیشن نے اُن کیساتھ عمران خان کا ساتھ برداشت نہیں کیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کو اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے کئی ایک چیلنجز کاسامناہے لیکن قوم کا باشعور طبقہ جانتا ہے اپوزیشن کے دورِ حکمرانی میں وہ قومی اور ذاتی زندگی کی خواہشات کا خون دیکھ چکے ہیں ۔عمران خان اپنی ہر قومی تقریرمیں کہتے ہیںکہ وطن عزیز کی عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے مانتاہوں عوا کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن شاہراہِ ترقی پر ایسے مسائل ومشکلات کو نظر انداز کر کے اپنے قومی خوبصورت کل کیلئے آگے بڑھنا ہوگا قومی لٹیروں او ر یہود نواز قوتوں کی سوچ اور آواز کو نظر انداز کرنا ہوگا ۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے نہ صرف تاجر برادری بلکہ قومی سرکاری اداروں کے افسرانِ اعلیٰ کو بھی نیب سے محفوظ کرلیا ہے ۔نظامِ حکمرانی میں بیوروکریسی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔انتظامی کوتاہیوں اور اختیارات سے تجاوز جیسے معاملات پر نیب ادارے کے فردواحد کو ملزم ومجرم نہیں ٹھہراسکے گی ۔

در اصل سابق دور کے خود پرست حکمران گزشتہ کل کے احتساب سے خوفزدہ ہیں ۔حکومت کے ہر اقدام پر تنقید ان کا شیوا بن چکا ہے ۔اپوزیشن نیب کو کالا قانون قرار دیتی رہی ۔ نیب پر اختیارات سے تجاوز کا الزام تھا اور جب حکومت نے اپوزیشن کی خواہشات پر نیب کے اختیارات محدود کردئےے تو حکومت کے اقدام کو اقرباءپروری کہہ کر آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ۔بلاول بھٹو تسلیم کرتے ہیں کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ نیب اور معیشت ایک ساتھ نہیں چل سکتے اگر حکومت نے آصف علی زرداری کی سوچ اپنائی تو تنقید کیوں ؟لیکن اگر بلاول بھٹو یہ چاہتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری ہوجائے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔

پی پی کی یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے بلاول بھٹو عمران خان کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتا اُن کی نظر میں وہ سلیکٹڈ ہیں مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کی تیمارداری کیلئے اپوزیشن لیڈر کیساتھ برطانیہ میں ہے ۔مریم اورنگزیب کہتی ہیں عمران خان نالائق وزیر اعظم ہیں اور پی پی کے سعید غنی کہتے ہیں کہ اگر نیب ترمیمی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی نہیں اور حکومت سمجھتی ہے کہ یہ قانون ٹھیک نہیں ترمیم ہونی چاہےے تو حکومت اپوزیشن کیساتھ بیٹھے اور اس قانون میں پارلیمان کے ذریعے ترمیم کرلیں کہتے تو سعید غنی ٹھیک ہیں لیکن پارلیمان میں تو یہ لوگ اپنے خلاف احتساب پر ماتم کیلئے آتے ہیں ۔شورمچاتے ہیں گالیاں دیتے ہیں ۔قراردادیں پھاڑ دیتے ہیں قانون سازی کیلئے تو کبھی انہوں نے سوچا تک نہیں لیکن جس پوزیشن میں اپوزیشن حکمران جماعت کیساتھ بیٹھنا چاہتی ہے وہ حکومت نہیں چاہتی حکومت کہتی ہے احتساب عدالت میں اپنے دامن پر لوٹ مار کے داغ دھوکر صاف ستھرے قومی لباس میں پارلیمان آﺅ اور قومی تعمیر وترقی کیلئے مشاورت سے قانون سازی کرو ۔حکومت کا یہ مﺅقف اپوزیشن کو گوارہ نہیں اس لےے آرڈیننس لانا تو حکمران جماعت کی مجبوری ہے ۔بیورکریٹس کو اپنے دائرئہ اختیار کے معاملات میں فیصلوں کا اختیار دینا ان کا حق ہے جوکہ نئے آرڈیننس سے یقینااُن کو مل گیا ہے ۔ نیا آرڈیننس برقرار رہے یا منسوخ ہوجائے دونوں صورتوں میں اپوزیشن کی شکست اور عمران خان کی جیت ہے اس لےے کہ قومی سوچ اپوزیشن کی سوچ کی محتاج نہیں اور یہ وقت ثابت کرے گا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *