Imran Khan faces pushback over Gilgit-Baltistan move. China ties his hands | Analysisتصویر سوشل میڈیا

چین کی ایماءپر پاک مقبوضہ شمالی علاقوں میں واقع گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی وزیر اعظم عمران خان کے اقدام کی خود ان کے ملک کے اندر زبردست مخالفت ہو رہی ہے اور اس کارروائی کو واپس لینے کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے۔ اس ہفتہ عمران خان کے کٹر حریف مولانا فضل الرحمٰن بھی حزب اختلاف کے ان رہنماؤں کے ہمنوا ہو گئے جو چینی ایجنڈے پر عمل آوری کے لیے عمران خان کے خلاف کھل کر بول رہے ہیں۔

جمیعت علمائے اسلام (فضل) کے سربراہ مولانا فضل نے اس بات پر زور دیا کہ گلگت بلتستان علاقہ کو مکمل صوبائی درجہ دینا جموں و کشمیر کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنانے کے ہندوستان کے 5اگست کے فیصلہ کو جائز قرار دے دے گا۔شعلہ بیان فضل الرحمٰن نے کہا کہ کشمیریوں کے خون پر سودا ہوا ہے ۔ کشمیرڈپلومیسی کے نام پر کاروبار چلایا جا رہا ہے۔

انہوں نے عہد کیا کہ کشمیر کی تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان پیپز پارٹی (پی پی پی) کے پاک مقبوضہ کشمیر شاخ کے صدر لطیف اکبر نے پاک مقبوضہ کشمیر کے دارالخلافہ مظفر آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا وفاقی حکومت کا اقدام ناقابل قبول ہے۔پاکستان روایتی طور پر دعویٰ کرتا ہے کہ جو کشمیری علاقہ اس کے زیر کنٹرول ہیں وہ نیم خود مختار ہیں اور ملک میں باضابطہ شامل نہیں ہیں۔

گلگت بلتستان کا اسلامی ملک میں ادغام پاکستان کے اس تصور کو بالواسطہ تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا کہ لائن آف کنٹرول ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحد ہے۔ یہ وہ شوشہ ہے جو پاکستان کے قومی سلامتی مشیر معید ڈبلیو یوسف نے چھوڑا تھا۔تاہم عمران خان حکومت نے صاف صاف کہہ دیا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اس کے منصوبہ سے پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اور اس جانب پہلے قدم کے طور پر 15نومبر کو گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات کرائے جائیں گے۔

ہندوستان میں پاکستان کے امور پر نظر رکھنے والے عمران خان اور فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا کی گلگت بلتستان کی صورت بدلنے کی فکر کوچین پاکستان اقتصادی راہداری ، جسے کہ چین شی جن پینگ کے ون بیلٹ ایند ون روٹ پراجکٹ کے تحت وسیع کرنا چاہتا ہے، محفوظ بنانے کے لیےچین کے دباؤ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔

یہ وہ منصوبہ ہے جو چار سال پہلے یعنی عمران خان کے بر سر قتدار آنے سے پہلے سے ہی بنایا جا رہا ہے ۔ در حقیقت دیکھا جائے تو یہ تمام معاملات 2016میں ہی اس وقت سے شروع ہو گئے تھے جب شی جن پینگ پاکستان کے دورے رپ آئے تھے اور اسی وقت گلگت بلتستان خطہ کا آئینی درجہ بڑھانے کا منصوبہ طے کیا گیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے جنوری2016میں ایک خبر شائعع کی تھی جس میں سرکاری حوالے سے کہا گیا تھا”چین کسی بھی ایسے متنازعہ علاقہ میںجس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں کی دعویداری ہوکوئی سرک بنانے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یہ یان چار سال پہلے دیا گیا تھا ۔جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عمران خان حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ 2020میں گلگت بلتستان کی حیثیت بدل دے۔انہیں لا محالہ چین کا کہا پورا کرنا ہی ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *