Imran Khan's communal harmony agenda tanks as Pakistan forces Ahmadiyyas to remove religious signs from graveyardتصویر سوشل میڈیا

عمران خان کی قیادت والی پاکستان حکومت کا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے دعوے کا پردہ اس وقت چاک ہو گیا اور اس کی اصلیت اور دیگر مذاہب کے تئیں اس کی نفرت کھل کر سامنے آگئی جب قانون نافذ کرنے والے افسران اور مسلم برادری کے لوگوں نے مبینہ طور پر احمدیہ قبروں سے اسلامی علامتیں ہٹا دیں۔یہ واردات دوشنبہ کو پنجاب کے ایک ضلع گوجرانوالہ کے ایک گاؤں تریگری میں پیش آئی۔

مقامی ڈان نیوز کے مطابق اقلیتی احمدیہ فرقہ کے ایک شخص نے بتایا کہ تریگری گاو¿ں میں یہ قبرستان1960میں بنایا گیا تھا اور اس میں 1967تک مسلمانوں اور احمدیہ مذہب دونوں کی میتیں دفن کی جاتی تھیں۔اس قبرستان کا 90فیصد رقبہ احمدیوں کا تھا لیکن جب احدیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تو مسلمانوں نے اپنی قبریں الگ کر لیں۔جب مقامی لوگوں نے 3جولائی کو قبروں سے اسلامی علامتیں ہٹانے کی شکایات درج کرائیں تو پولس حرکت میں آّگئی۔

احمدی فرقہ کے ایک شخص نے بتایا کہ جہاں ایک طرف پولس نے احمدیہ فرقہ کے لوگوں پرا یسا کرنے کی اجازت دینے کے حوالے سے ایک دستاویز پر دستخط کے لیے دباؤ ڈالا وہیں دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے عہدیداروں نے اس الزام کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ایک پولس عہدیدار نے کہا کہ ملک کے آئین کے مطابق چونکہ اقلیتی برادری والوں کو قبروں پر علامتیں لگانے کی کوئی قانونی اجازت حاصل نہیں تھی اس لیے وہ علامتیں ہٹا دی گئیں۔

ایک احمدیہ ترجمان نے کہا کہ یہ واردات فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے والے ملک کے طور پر خود کو پیش کرنے کی پاکستان کے دعوے کی تردید کرتی ہے۔ان فرسودہ قوانین کو حالات کے مطابق ڈھالنے کے بجائے پاکستان اقلیتوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور ان کا اعتماد بڑھا رہی ہے۔

مسلمانوں کی جانب سے محمد اکرام نام کے ایک شخص نے شکایت درج کرائی احمدیوں کے ذریعہ اس علامت کا جس کا اسلام سے گہرا تعلق ہے ، استعمال کرنے پر مقامی باشندوں میں زبردست غم و غصہ ہے اور وہ اسے ضروری نہیں سمجھتے کہ کہتے پھریں کہ وہ اکثریت کا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *