Imran’s phone call not enough to improve Bangladesh-Pakistan tiesتصویر سوشل میڈیا

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے22جولائی بروز بدھ بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ سے بذریعہ فون رابطہ کیا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے سے نیک خواہشات کا اظہار کر کے دونوں ممالک میں سیلاب اور کووڈ 19-کی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔تاہم بین الاقوامی ابلاغی ذرائع کے مطابق عمران خان نے سارک کے توسط سے علاقائی تعاون کو فروغ دینے نیز دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات مضبوط کرنے پر بھی بات کی۔علاوہ ازیں عمران نے ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے معاملات پر روشنی ڈال کر ان کے پر امن حل پر امید ظاہر کی۔عمران خان کی فون کال نے بین الاقوامی میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔اسی طرح سفارتی حلقوں میں بھی ایہ ایک گرما گرم موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

چونکہ فی الحال ہندوستان اور چین میں زبردست کشیدگی چل رہی ہے چینی حمایت یافتہ پاکستان کے وزیر اعظم کا بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کو فون کر نے کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اگر بنگلہ دیش پاکستان کی کال پر مثبت جواب دیتا ہے تو اس سے ہند چین تصادم پر اس کا موقف واضح ہو جائے گا۔بنگلہ دیش کا اگلا قدم جنوب ایشیائی خطہ کی سیاسی بساط پر اثر انداز ہوگا۔سیاسی تجزیہ کاروں کو خیال ہے کہ اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو اس ے پتہ چلے گا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں سدھار آبنا آسان نہیں ہوگا۔ حکمراں جماعت کے رہنما اور پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش سے کوئی حوصلہ افزا جواب کی امید رکھنے سے قبل پاکستان کو حل طلب اور تلخ معاملات کو حل کرنا ہوگا۔

عمران خان کی فون کال کے بارے میں معلوم کیے جانے پر بنگہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن نے بنگلہ نیوز کو بتایا کہ ” انہوں نے کوویڈ19-اور سیلاب کی صورت حال پر بات کی ۔ یہ محض اخلاقی کال تھی اور گر وہ ہم سے تعلقات سدھار سکتے ہیں اور اس بابت مخلص ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔تاہم عبد المومن نے کہا کہ پاکستان نے1971کی جنگ آزادی ے دوران نسل کشی کے لیے ابھی تک کوئی معافی تلافی نہیں کی ہے ۔ہم ہر ایک سے دوستی برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن اگر وہ معافی نہیں مانگتے تویہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔عبدالمومن نے کہا کہ 1971کی جنگ آزادی کے دوران پاکستان کا30لاکھ بنگلہ دیشیوں کو خون بہا دینا اور ہزاروں واتین کی آبر و ریزی کرناہم ابھی تک فراموش نہیں کر سکے ہیں۔

اس سے قبل یکم جولائی کو پاکستان کے نئے ہائی کمشنر متعین بنگلہ دیش عمران احمد صدیقی نے وزیر خارجہ اے کے عبد المومن سے بنگلہ دیش کے قومی دار ا لخلافہ ڈھاکہ میں ملاقات کی ۔ملاقات کی تفصیل کا انکشاف نہیں کیا گیا لیکن دونوں مواقع پر پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے بیقرار نظر آیا۔ اس لیے یہ سوال اٹھنا فطری ہے کہ بنگلہ دیش کیا ردعمل ظاہر کرے گا۔عبد المومن اور عمران صدیقی کے درمیان ملاقات کو زیداہ تر ہندوستانی نیوز چینل ملاقات کے موقع محل کے حوالے سے شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب جون کے وسط میں لداخ کی وادی گلوان میں سرحدی جھڑپ میں20ہندوستانی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ہندوستان اور چین کے درمیان نہایت درجہ تلخ ہیں ۔اس بابت معلوم کیے جانے پر وزیر خارجہ نے کہا کہ میڈیا جو چاہے کہہ سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حقیقی ہیں یا نہیں۔

پاکستان کے ساتھ کچھ موجودہ تجارت کے باوجود بنگلہ دیش اس وقت بپھر گیا جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے بنگلہ دیش میں ،جس نے 1971میں انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب ہونے والوں کو پھانسی چڑھایا ، چلائے گئے جنگی جرائم مقدمہ کے خلاف قرار دادیں منظور کیں۔ علاوہ ازیں یہ بھی الزامات ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش کی اندرونی سیاست میں مداخلت اور وہاں بد امنی پھیلانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔عوامی لیگ کی مجلس شوریٰ کے رکن اور سابق وزیر میتیا چودھری نے کہا کہ ہم ان سے بات نہیں کرتے وہ خود ہماری طرف بڑھتے ہیں۔ ان کی کال آتی ہے تو یہ ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم اس کال کو لیں۔ اور ہم اخلاقاً بات کرتے ہیں۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ نے عمران خان سے خوش اخلاقی اور سفارتی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بات کی تھی۔ ہم کسی سے بھی خراب تعلقات نہیں چاہتے۔

وزیر مملکت برائے جہاز رانی محمود چودھری نے کہا ”بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں ہی سارک ممالک ہیں۔ دو وزیر اعظم جنوب ایشیا سے متعلق امور پر بات کر سکتے ہیں“۔ انہوں نے مزید کہا کہ تاہم آج بھی ہمارے درمیان کچھ معاملات حل طلب ہیں ۔ اگر وہ تعلقات مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پہلے ان معاملات کو حل کرنا ہوگا۔ بنگلہ دیش نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نہیں بلکہ خونیں انقلاب و جنگ سے آزادی حاصل کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *