حزب اللہ مجاہدین کے کرتا دھرتا سید صلاح الدین کاکشمیر میں دہشت گرد گروہ کی قیادت کے لئے لائن آف کنٹرول کے پار 3 دہشت گردوں کو ذمہ داری سونپنے کے اقدام نے سیکورٹی ایجنسیوں کو وادی میں حزب المجاہدین کی نئی قیادت کی تلاش کرنے کی نئی حکمت عملی وضع کرنے پر مجبور کر دیا ۔
گذشتہ ہفتے ایک دہشت گرد ریاض نائیکو ، جوکشمیر میں صلاح الدین کا معتمد خاص تھا،کشمیر پولیس اور راشٹریہ رائفلز کی مشترکہ کارروائی میں مارا گیا تھا ۔ اس کارروائی میں ہی سلامتی دستوں کو پلوامہ گاو¿ں اس 32 سالہ نوجوان کے اس خفیہ ٹھکانے تک پہنچنے میں کامیابی ملی تھی ، جو اس کے اس گھر سے جہاں وہ ہتھیار اٹھانے سے رہا کرتا تھا زیادہ دور نہیں تھی۔ صلاح الدین نے غازی حیدر عرف سیف اللہ میر کو کشمیر میں حزب اللہ کا نام نہاد چیف کمانڈر مقررکیا۔
ظفر الاسلام کو ، جو 55 سالہ اشرف مولوی کا فرضی نام ہے غازی حیدر کا نائب مقرر کیا اور ابو طارق بہائی کو غازی کا فوجی مشیر اعلیٰ بنایا ۔ جموں و کشمیر کے ایک اعلی عہدیدار نے کہا کہ ان تینوں میں سے ابو طارق بہائی ہلاکتوں اور موت کی سزا دینے میں سب سے زیادہ سفاک رہا ہے ۔ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ ابو طارق بھائی حزب اللہ کا دہشت گرد ہے جسے ہم اننت ناگ کے رہائشی زبیر وانی کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ تینوں ، حزب اللہ کی زیادہ تر قیادت کی طرح ، جنوبی کشمیر کے اضلاع اننت ناگ ، پلوامہ اور شوپیان میں سرگرم رہے ہیں۔کشمیر میں پولیس افسران نے بتایا کہ انہوں نے ان دہشت گردوں کی نئے سرے سے تلاش شروع کی تھی لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ انہیں اس بات کی بھی توقع تھی کہ نائکو کے مارے جانے کے بعد حزب کی تازہ بھرتی کچھ عرصے کے لئے کم ہوجائے گی۔
ایک سینئر افسر نے بتایا کہ نائیکو کی ہلاکت حزب اللہ کے لئے ایک زبردست دھچکا تھا۔نائکو کی ہلاکت کے بعد سامنے آنے والی بڑے پیمانے پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ، صلاح الدین کو نائکو کی موت پر یہ کہتے سنا گیا ”نائیکو کی موت ہم سب کے لیے ایک زبردست صدمہ ہے“ لیکن یہ بھی کہا کہ ایسی قربانیاں طویل عرصے سے کشمیر میں جاری ہیں۔ویڈیو میں اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ اس سال جنوری سے اب تک 80 جنگجوو¿ں یا دہشت گردوں نے کشمیر کے مقصد کے لئے اپنی جانیں قربان کر دی ہیں۔ گھنی داڑھی والا صلاح الدین جو کبھی ایک مبلغ اسلام تھا اور سیاست میں شامل ہونا چاہتا تھا ، 1987 کے انتخابات کے، جس میں زبردست دھاندلی کی گئی تھی، بعد تین عشرے قبل پاک مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگیا تھا۔ یہیں اس نے دہشت گرد گروپ حزب المجاہدین قائم کی اور اس دہشت گرد گروپ کو حکومت پاکستان سے مالی امداد ملنا شروع ہو گئی۔ لشکر طیبہ جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کے برعکس حزب اللہ زیادہ تر مقامی افراد کی بھرتی سے لیس ہے۔ بے اطمینانی کی آگ بھڑکانا اس کی حکمت عملی کا ایک کلیدی جزو رہا ہے۔صلاح الدین نے اپنے اہل خانہ کو دہشت گردانہ سرگرمیوں سے دور رکھا تھا۔ ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ وہ ایسا کرنے میں کیسے کامیاب رہا حقیقتاً قابل ذکر ہے ۔ اس کے پانچ بیٹوں میں سے تین ریاستی حکومت یا اس کے اداروں میں ملازمت کرتے ہیں۔ چوتھا بیٹا ڈاکٹر ہے اور سری نگر میں پریکٹس کرتا ہے اور سب سے چھو ٹے بیٹے نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے اور وہ کشمیر میں ہنر ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ چلاتا ہے۔دیگر تین میں سے ایک شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں میڈیکل اسسٹنٹ ، دوسرا بڈگام ایجوکیشن آفس میں کمپیوٹر آپریٹر اور تیسرا جس کا نام سید یوسف ہے محکمہ زراعت میں ملازمت کرتا ہے۔ سید یوسف اس وقت گرفت میں آیا جب قومی تحقیقاتی ایجنسی نے حوالے کے ذریعے اپنے باپ سے غیر قانونی رقم وصول کرنے پر اس کے خلاف 2011 میں درج کیے جانے والے ایک کیس کو2017 میں دوبارہ شروع کیا۔