خرطوم(اے یو ایس)سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں ایک مرتبہ پھر بھیک مانگنے کا رجحان بڑی بے رحمی کے ساتھ لوٹ آیا ہے۔ سوڈان میں مواصلاتی ویب سائٹس پر دو دنوں سے ان بھکاریوں سے متعلق انکشافات کئے جا رہے۔ بھکاریوں سے متعلق ایک کہانی بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے جس کے مطابق بھکاریوں کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ایک ٹھیکدار نے ان کو وہیل چیئر ز کرائے پر دینا شروع کردی ہیں۔پریس رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ ٹھیکیدار اپنی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے وسطی خرطوم میں پیپلز ہسپتال کے چوراہے کو ایک مرکز کے طور پر استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ وہ ایک وہیل چیئر کا ایک دن کا کرایہ ایک ہزار سوڈانی پاؤنڈ وصول کرتا ہے۔یہ وہیل چیئرز بھکاری کو ایک بیمار شخص یا کسی چلنے پھرنے سے قاصر شخص کے طور پر دکھانے میں مدد کرتی ہیں۔ اس طرح خود کو معذور ظاہر کرکے رش والے مقامات پر راہگیروں اور گاڑیوں کے ڈرائیوروں کی ہمدردی حاصل کی جاتی ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ نہ صرف خرطوم بلکہ سوڈان کی مختلف ریاستوں میں لوگوں کے سامنے دست درازی ایک خوفناک رجحان میں تبدیل ہو گئی ہے اور ذرائع نے تسلیم کیا کہ کمزور معاشی حالات، مشکلات اور سفاکانہ طرز زندگی نے لوگوں کی زیادہ تعداد کو بھیک مانگنے جیسے قبیح پیشے کی طرف دھکیل دیا ہے۔یہ بھکاری مرد اور عورتیں عام طور پر خستہ حال کپڑے پہنے سٹریٹجک مقامات کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ ہسپتالوں اور ریستورانوں کے قریب اور خرطوم کے بڑے سڑکوں کے جنکشنوں پر ٹریفک لائٹس کے قریب لوگوں سے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔بھکاری ہمدردی حاصل کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں اور بعض جملے دہرا کر، بیماری اور معذوری ظاہر کرکے اور اپنے یا اپنے خاندان کے کسی فرد کے لیے مدد کی اپیل کرکے لوگوں سے سوال کرتے ہیں۔سرکاری ذرائع نے ”العربیہ ڈاٹ نیٹ“ کو بتایا کہ بھکاریوں کی تعداد کے بارے میں کوئی درست اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم ایک اندازہ کے مطابق خرطوم میں ان کی تعداد 11 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے بھی خواتین بھکاریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے بعد بچے ہیں اور آخر میں مرد وں کی تعداد ہے۔ راہگیر اور عام شہری خواتین اور بچوں کے حوالے سے زیادہ نرم دل واقع ہوتے ہیں ، اسی لیے بچوں اور خواتین کی اکثریت اس شعبہ میں در آئی ہے۔ذرائع نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو مزید بتایا کہ بھکاریوں میں غیر ملکیوں کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہ شرح 80 فیصد سے زیادہ تک ہونے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق اس کام میں منظم جماعتیں ملوث ہیں۔ ان بھکاریوں کو بعض ممالک سے لاکر یہاں بھیک منگوانے پر لگا دیا جاتا ہے۔ بھیک مانگنے کے بدلے میں انہیں صرف خوراک اور رہائش فراہم کی جاتی ہے اور بھیک کی رقم ان منظم گروہوں کے کرتا دھرتا افراد کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس طریقہ سے بھیک منگوانا مجرمانہ فعل ہے اور بین الاقوامی سطح پر اسے ممنوعہ انسانی سمگلنگ کے جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔خرطوم میں سماجی ترقی کی وزارت کے ایک سینئر ذریعہ نے ”العربیہ ڈاٹ نیٹ“ کو واضح کیا کہ اس حوالے سے قوانین کمزور ہیں جن کے باعث بھی بھیک کے پیشے پر قابو پانے میں مشکلات ہیں۔ بھکاریوں کے خلاف اٹھائے گئے سرکاری اقدامات رپورٹیں کھولنے اور مالی جرمانے عائد کرنے سے آگے نہیں بڑھتے۔ یہ جرمانے اس قدر کم ہیں کہ بھکاری انہیں آسانی سے ادا کرکے پھر بھیک مانگنے میں مشغول ہوجاتا ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ اس حوالے سے قوانین میں بنیادی ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا ایسے منظم نیٹ ورکس کو ختم کرنا بھی بہت ضروری ہے جو ان بھکاریوں کو لاتے ہیں۔
خرطوم میں ماہر عمرانیات ڈاکٹر اسما جمعہ نے ”العربیہ ڈاٹ نیٹ“ کو بتایا کہ بھیک مانگنا ایک ایسا رجحان ہے جو معاشروں میں معاشی اور سماجی عدم توازن اور سیاسی عدم استحکام کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ ریاستی اداروں کی عدم موجودگی یا ان کی دیکھ بھال کے پروگراموں سے دستبرداری کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے پروگرام شہریوں کو حقوق اور بہتر زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ڈاکٹر اسما نے مزید کہا کہ جتنا زیادہ عدم توازن بگڑتا ہے عدم استحکام برقرار رہتا ہے۔ ریاست شہریوں کو جتنا نظرانداز کرتی ہے بھکاریوں کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر بھکاری کمزور گروہوں سے ہوتے ہیں۔ ان میں خواتین، بچے اور معذور افراد زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کمزور طبقوں کی طرف حکام کی توجہ مبذول ہونے سے بھی اس رجحان میں کمی لائی جا سکتی ہے۔