تلک دیواشر
رکن قومی سلامتی مشاورتی بورڈ

2019میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) سے ا پنے خطاب میں عمران خان نے مغرب میں اسلام دشمنی پر بہت کچھ کہا تھا۔اور اس کے بعد انہوں نے ہندوستان میں مبینہ طور پر مسلمانوں کے ساتھ خراب برتاؤ پر الٹا سیدھا بولتے رہے۔انہیں اس کے بجائے یہ دیکھنا ہوگا کہ خواد پاکستان میں اقلیتوں پر کیسا ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے۔پاکستان میں اقلیتوں کو جن کلیدی امور کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے ان کی آبادی کے لحاظ سے ،انہیں قانون توہین رسالت کے تحت جھوٹے الزامات لگا کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے گھروں اور عبادت گاہوں پر آئے روز ہجومی حملے کیے جاتے ہیں اور کسی کو اس کی سزا نہیں دی جاتی، ان کی خواتین خاص طور پر کمسن بچیوں کو جبراً تبدیلی مذہب کرا کے مسلم مردوں سے شادی کرادی جاتی ہے۔ کورونا وائرس وبا کے دوران اس وقت کئی معاملات منظر عام پر آئے جب اقلیتوں کو غذا سے محروم رکھ کر کہا گیا کہ اگر انہیں غذا چاہئے تووہ پہلے اسلام قبول کریں۔ حتیٰ کہ امریکی کمیشن برائے بین ا لاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اس سال28اپریل کو جاری اپنی رپورٹ میں ہندوؤں اور عیسائیوں کو کورونا وائرس کے حولاے سے دی جانے والی غذائی امداد سے محروم رکھنے کے معاملہ کو اجاگر کیا۔پاکستان ہمیشہ یہ کہتا رہا ے کہ اس کا آئین اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور ان کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے نیز اسلام القلیتوں کا تحفظ یقینی اور لازمی قرار دیتا ہے۔لیکن وہ یہ نہیں بتاتا کہ وہ آئین کا استعمال اس کی خلاف ورزی کے لیے ہی کرتا ہے اور اقلیتوں سے متعلق اسلام کی ہدایات پر عمل آوری سے میلوں دور رہتا ہے۔

عمران خان کے تحت ایک نئی سمت یہ اختیار کی گئی کہ کرت پور راہداری یا چندہندو مندروں کی تزئین کاری پر توجہ مرکوز کی جائے۔اور اس کے بعد یہ ظاہر کیا جائے کہ پاکستان میں اقلیتوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل جیسی غیر ملکی شخصیات کے لیے انہیں سیاحتی مقامات میں بدل دیا جاتا ہے تاکہ انہیں پاکستان کی ”نرم “ امیج کا پیغام دیا جا سکے ۔اقلیتوں سے خراب برتاو¿ کی حقیقت عمارتوں کی تزئین کاری سے کہیں زیادہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حقوق انسانی کمیشنوں نے ہمیشہ پاکستان کو مذہبی اقلیتوں کے لیے بدترین ممالک میں سے ایک قرار دیا ہے۔جسیا کہ ڈان نے 9مئی کے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ”پاکستان میں اقلیتی فرقے زیادہ تر خوف و عدم سلامتی کے سائے تلے زندگی گزارتے ہیں۔ تحفظ بہم پہنچانے کے بجائے کمزور و غیر محفوظ گروپوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے یاخود غرضی میں دوست یا ساتھی کو دھوکہ دیا جاتا ہے۔یو ایس سی آئی آر ایف کی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کو اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی مسلسل پامالی اور بین الاقوامی مذہبی آزادی قانون کے تحت مذکور مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزی کرنے والے ملک کے طور پر ،جو اسے2002میں قرار دیا گیا تھا، برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان کے قوانین میں اقلیتوں کے خلاف تفریق سے گھرا ہوا ہے۔انتہاپسند علماءکم و بیش روزانہ اقلیتوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور اسکولی نصاب میں دوسرے عقائد کے خلاف مواد بھرا ہے، اور اقلیتوں کو کمتر درجہ کا بتایا جاتا ہے۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف اس قسم کی عدم رواداری اور منافرت 1947سے ہی جاری ہے۔ حالت کئی عشروں کے دوران بدترہوتی چلی گئی۔ لوگ بھول گئے لیکن جناح کی11اگست1947کی تقریر ان کی موت کے بعد فوری طور پر غائب کر دیا گیا اور اسے لفافے میں بند کرکے دبا دیا گیا۔تنقیدوں کی بھرمار کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان مسئلہ کی جڑ سے نمٹے بغیر عوامی رابطوں اور علامتی اشاروں کے توسط سے اپنی بین الاقوامی ساکھ سدھارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس قسم کی ایک کوشش ای ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ جاری ہونے کے فوراً بعد 5مئی کو قومی کمیشن برائے اقلیتوں کی نو تشکیل کرنا ہے۔سپریم کورٹ نے 2013میں پشاور آل سینٹس چرچ میں دوہرے بم دھماکوں کے بعد 2014میں ایک بااختیا رکمیشن تشکیل دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس حکم کی دو اہم شقیں یہ تھیںکہ یہ پارلیمانی قانون کے ذریعہ تشکیل دیا جائے اور منجملہ اس کا کام آئین اور قانون کے تحت خطرات سے حفاظت پر عملی اقدامات پر نظر رکھنا ہونا چاہئے۔لیکن قومی کمیشن برائے اقلیت پر دو وجوہ کی بنا پر شدید تنقید کی گئی۔ اول یہ کہ اسے پارلیمانی قانون سے نہیں بلکہ کابینہ کے فیصلہ سے تشکیل دیا گیا اور چونکہ وہ آزاد نہیں تھا اور وزارت برائے مذہبی امور کے تحت تھا اس لیے اقلیتوں کو درپیش مسائل دور کرنے میں غیر موثر تھا۔19فروری کو اپنی رپورٹ میں وزارت مذہبی امور نے کہا کہ قومی کمیشن برائے اقلیت پارلیمانی قانون کے ذریعہ تشکیل دیا جائے گا۔اس کے باوجود اس کی تشکیل کابینہ کے توسط سے کی گئی پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون بنا کر نہیں۔

کونسل برائے اسلامی نظریات (سی آئی آئی) کے چیرمین قبلہ ایاز نے ، جو کمیشن کے سابق آفیشیو رکن ہیں، میڈیا نے جب ان کے حوالے سے بتایا تو اس فریب کا انکشاف ہوا کہ کمیشن اقلیتوں کی بہبودکے لیے نہیں بنایا گیا اور نہ ہی اسے سرکاری فیصلوں پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہے۔وہ محض بین مذہبی ہم آہنگی اور صحتمند رتبادلہ خیال کو فروغ دینے والا ایک فورم ہے۔انہو ں نے مزید کہا کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے زبردست بین الاقوامی دباو¿ ہے اور ایسے نقصان پر کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری سطح پرکمیشن کو استعمال کیا جارہا ہے اور دنیا کو دکھایا جا رہا ہے کہ اس سمت پاکستان پیش رفت کر رہا ہے۔حکومت نے احمدیوں کے معاملہ پر بھی اپنءبندشیں اور سخت کردی ہیں۔ پہلے کابینہ نے کمیشن میں احمدیوں کے لیے ایک نشست محفوظ کی تھی لیکن دوسرے اجلاس میں یہ نشست ختم کر دی گئی۔اس کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔پاکستان میں ایک احمدی آئینی طور پر لازمی طور پر غیر مسلم قرار دیا گیا ہے اور اس لیے اسے قالیتوں میں جگہ ملنی چاہئے۔لیکن چونکہ احمدی خود کو مسلمان قرار دیتے ہیں اس لیے وہ خود اقلیتی کمیشن میں اپنی شمولیت کی پیش کش ٹھکرا دیں گے۔پاکستانیوں کو جناح کی وہ بات یاد رکھنی چاہئے جو انہوں نے احمدیوں سے متعلق کیے گئے ایک سوال پر کہی تھی”میں کسی ایسے شخص کو جو خود کو مسلمان بتاتا ہے کیسے غیر مسلم قرار دینے والا کون ہوتا ہوں؟“کمیشن ایک فریب و دھوکہ ہونے کے باوجود پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے کمیشن کے قیام کو مذہبی آزادی کے تحفظ کی جانب پاکستان کے مسلسل سفر میں ایک اہم قدم بتایا ہے۔بلاشبہ پاکستان خواہ جوہری اسلحہ کا معاملہ ہو،دہشت گردی ہو اور اب مذہبی آزادی کا معاملہ ہو امریکیوں کو بے وقوف بنانے میں زبردست مہارت رکھتا ہے۔
حرف آخر:اپنے تشکیل دیے جانے کے محرک سے رو گردانی کرتے ہوئے این سی ایم کے پہلے اجلاس میں پاکستان کی اقلیتوں کے سنگین معاملات اٹھانے کے بجائے ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں سے تفریق آمیز سلوک
پر بحث کی گئی۔

( یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات و نظریات ہیں اردو تہذیب کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *