In Pakistan even women journalists are not being sparedتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

پاکستان کئی عشروں سے صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ترین ملک بنا ہوا ہے۔ صحافیوں کی فلاح و بہبود اور ان کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے بارہا اپنی رپورٹوں میں پاکستانی صحافیوں کو درپیش چیلنجوں اور ان کی زندگی کو لاحق خطرات کو بے نقاب کیا ہے۔ ان کا اغوا، ان کی جبریہ گمشدگی، ان پر قاتلانہ حملوں اور یہاں تک کہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں جان سے جانے کے واقعات کا ایک تسلسل ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب ایک سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا اغوا کیا گیا۔ انھیں اغوا کرنے والوں میں کچھ سادہ لباس میں تھے تو کچھ وردی میں تھے۔ اغوا کاروں نے ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں جو مطیع اللہ جان کے بقول سرکاری ہتھکڑی لگ رہی تھی۔ اغوا کار ان سے بار بار کہہ رہے تھے کہ تم ایک صحافی ہو، پڑھے لکھے آدمی ہو تمھیں نہیں معلوم کہ تمھیں کیا کرنا چاہیے۔ گویا وہ مطیع اللہ جان کی رپورٹنگ سے ناراض تھے اور انھیں سبق سکھانا چاہتے تھے۔ بہر حال بارہ گھنٹے کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔ انھوں نے عدالت میں اس اغوا کی پوری تفصیل بتائی۔ یہ کوئی واحد اور تنہا واقعہ نہیں ۔ مطیع اللہ جان کی قسمت اچھی تھی کہ انھیں ختم نہیں کیا گیا۔ ورنہ حکومت اور فوج کے خلاف لکھنے والوں کو اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔یہ تو تھا مرد صحافیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ہلکا سا تذکرہ۔ خاتون صحافیوں کی زندگی بھی کوئی آسان نہیں ہے۔ ان کو بھی مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حکومت کے خلاف لکھنے کی پاداش میں سوشل میڈیا پر انھیں ٹرول کیا جاتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کو اچھالا جاتا ہے اور ان پر قسم قسم کے الزامات عاید کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کی کچھ معروف خاتون صحافیوں نے سوشل میڈیا پر ٹرولنگ اور ہراسانی کے بارے میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے اور اس کی وجہ سے آزادی اظہار شدید خطرے میں ہے اور ان کے لیے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا ناقابل یقین حد تک مشکل ہوگیا ہے۔ ایک صحافی بے نظیر شاہ نے اپنے ٹویٹ میں یہ مشترکہ بیان جاری کیا جس پر تیس سے زائد خواتین صحافیوں نے دستخط کیے تھے۔ اس بیان میں خواتین صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ سب کچھ ایک منظم طریقے سے ہو رہا ہے اور اس میں برسر اقتدار سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں سمیت اس جماعت سے وابستہ متحرک اکاؤنٹس شامل ہیں۔

بیان کے مطابق پاکستان میں خاتون صحافیوں اور تبصرہ نگاروں پرسوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والے حملوں کی وجہ سے ہمارے لیے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینا مشکل ہوگیا ہے۔ ان حملوں کا ہدف اختلافی نقطہ نظر رکھنے والی خواتین ہیں اور وہ ہیں جن کی رپورٹوں میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔اس مشترکہ بیان میں الزام لگایا گیا تھا کہ خواتین صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے انہیں بدنام کیا جا رہا ہے اور ان کی ذاتی نوعیت کی معلومات عام کی جاتی ہیں۔ ان پر جعلی خبریں پھیلانے اور عوام دشمن ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے اور لفافہ صحافی کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ صحافی اور انسانی حقوق کی علمبردار اور علامت سمجھی جانے والی عاصمہ جہانگیر کی صاحبزادی منیزے جہانگیر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ہم نے اس سے برا وقت بھی دیکھا ہے۔ میں نے اپنی والدہ کے ساتھ مارشل لا دیکھا ہے۔ ان کو جیل جاتے دیکھا ہے اور جس طرح کی خوفناک قسم کی تنقید ان کے خلاف ہوتی تھی شاید وہ اب نہیں ہوتی۔ مگر یہ جو نیا ٹرینڈ ہے اس میں خواتین صحافیوں کو گندی گالیاں اور ان کے جسم کے بارے میں طرح طرح کے کمنٹس دیے جاتے ہیں جو امتیازی ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر ہم کھل کر متوازن رپورٹنگ کریں اور حکومت پر تنقید کریں تو ہماری ٹرولنگ ہوتی ہے۔ جب ایسے ٹرولز کے پروفائلز پر جائیں تو نظر آتا ہے کہ یا تو ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے یا فوج سے ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہم لاشعوری طور پر حکومت پر تنقید یا کھل کر تنقید اور متوازن رپورٹنگ نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ سے ہماری صحافت پر برا اثر پڑتا ہے۔صحافی بے نظیر شاہ کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ کوئی پہلی بار سامنے نہیں آیا۔ ایک لمبے عرصے سے ایسا ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا ٹرولنگ پی ٹی آئی کی حکومت کے آنے سے پہلے بھی ہو رہی تھی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے حمایتی بھی ایسا کرتے تھے۔ لیکن جب سے کورونا وائرس کی وبا سامنے آئی ہے اس میں شدت آئی ہے اور ان لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے جو اس بارے میں رپورٹنگ کر رہے ہیں اور کرونا سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی کو نشانہ بناتے ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر اس کا سامنا کیا ہے۔ بینظیر شاہ اس طرح کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے جب ایک اسٹوری شیئر کی تو اس پر انہیں پی ٹی آئی کے صوبائی وزرا سمیت ایسے متعدد ٹرولز نے نشانہ بنایا جو ان کے مطابق بظاہر پی ٹی آئی کے حمایتی تھے۔ ان کے مطابق مجھ پر ذاتی نوعیت کے اعتراضات کیے گئے اور پھر مجھے مسلسل تقریباً ایک ہفتے تک پنجاب حکومت کے اہلکاروں اور وزرا نے نشانہ بنایا اور پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے ایسے ایک پیغام کو ری ٹویٹ کیا گیا اور متعدد فرضی اکاؤنٹس سے نشانہ بنایا گیا۔

صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ”میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی“ نے گزشتہ سال نومبر میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ آن لائن ہراساں کیے جانے کے واقعات سے 95 فی صد خواتین صحافیوں کا کام متاثر ہوا ہے۔ ہراساں کیے جانے اور دھمکیوں سے تنگ آ کر کئی خواتین نے خود ساختہ سینسر شپ اختیار کر لی ہے۔اب ایک بار پھر خاتون صحافیوں نے اس صورت حال کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ 150 سے زائد خاتون صحافیوں کے دستخط سے جاری ہونے والے بیان میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والے نازیبا سلوک کو روکا جائے اور تمام سیاسی جماعتیں اس کی ذمہ داری لیں کہ ان کے سوشل میڈیا ونگ سے خاتون صحافیوں کی تضحیک کی جاتی ہے۔ خاتون صحافی اور حالات حاضرہ کے ایک پروگرام کی میزبان فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا ایک نئی حقیقت ہے اور اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے۔ آج کا میڈیا ڈیجیٹل میڈیا ہے جہاں ملکی خارجہ پالیسی سے لے کر اسکینڈل تک سب زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ جس طرح سیاسی جماعتیں اپنے نمائندوں کے بیانات کی ذمہ داری لیتی ہیں اسی طرح انہیں اپنے سوشل میڈیا ونگ کو بھی سامنے لانا ہو گا۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا کی ذمہ داری نہیں لے سکتیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کو کسی صحافی سے کوئی مسئلہ ہے تو سوشل میڈیا پر اسے ٹرول کرنے کی بجائے کسی اور فورم پر بات کی جائے۔ خواتین صحافی کوئی اضافی یا غیر معمولی رعایت نہیں مانگ رہی ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو جو عزت و وقار حاصل ہے اس کی عکاسی سوشل میڈیا پر بھی ہونی چاہیے۔صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور معروف صحافیوں و تجزیہ نگاروں کی حمایت سے جاری کیے جانے والے مشترکہ بیان میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے مطالبات بھی پیش کیے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے مطالبے میں کہا کہ سیاسی جماعتوں، تنظیموں، سرکاری یا ریاستی اداروں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے لیے فوری طور پر قواعد و ضوابط طے کیے جائیں۔

تحقیقات کے ذریعے ان نیٹ ورکس کی نشان دہی کی جائے جو میڈیا میں کام کرنے والی خواتین پر منظم انداز میں حملے کرنے، ہیش ٹیگ اور ناشائستہ مہم شروع کرنے اور چلانے میں ملوث ہیں۔ الیکشن کمشن، معلومات تک رسائی کے 2017 کے قانون کے تحت براہ راست تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس کو ظاہر کرنے کے لیے ہدایات جاری کرے۔ خاتون صحافیوں کی تضحیک کرنے والے افراد کے خلاف تفتیش شروع کی جائے اور ثبوت کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ جب بھی کوئی صحافی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) یا پولیس میں آن لائن ہراساں کیے جانے یا دھمکیاں دیے جانے کی شکایت درج کرائے تو کیس کو کسی دباؤ کے بغیر شفاف انداز میں حل کیا جائے نہ کہ متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو خواتین کے خلاف آن لائن حملوں سے نمٹنے کے لیے ایک الگ ڈیسک قائم کرنا چاہیے۔ تفتیش کرنے والے عملے کو صنفی حساسیت سے متعلق تربیت دی جائے تاکہ وہ موثر کارروائی کر سکیں۔ جرنلسٹ پروٹیکشن بل میں آن لائن دھمکیوں اور صحافیوں کے خلاف تشدد کا ادراک ہونا چاہیے اور اسے تفتیش کے لیے مؤثر بنایا جائے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو آن لائن حملوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ خواتین صحافیوں نے حکومت، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹیوں سے بھی نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی کہا ہے کہ حکومت ایسے قواعد و ضوابط پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا پر بدزبانی کو روکا جا سکے، گالم گلوچ کرنے والوں کی شناخت ہو سکے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *