سندھ : (اے یو ایس)ملک میں جبری گمشدگی پر قائم کمیشن آف انکوائری سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے اب تک صوبہ سندھ سے جبری گمشدگیوں کے 1643 کیسز سامنے آئے ہیں۔ جن میں سے 37 کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ حراستی مراکز میں قید ہیں۔ 248 جیلوں میں جب کہ 55 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس طرح مجموعی طور پر کمیشن صوبہ سندھ سے 1029 افراد کا سراغ لگانے میں کامیاب رہا۔انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سندھ میں گزشتہ ایک سال کے دوران سیاسی ورکرز کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ خاموشی سے گھر واپس بھی آ گئے ہیں جب کہ کچھ کی جیلوں میں نشان دہی ہوئی ہے جنہیں مختلف الزامات کی بنا پر گرفتار ظاہر کیا گیا ہے۔
سندھ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیومن رائٹس ڈیفنڈرز نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق 2020 کے دوران مجموعی طور پر 127 افراد لاپتا ہوئے۔ 112 دوبارہ منظر پر آ گئے جب کہ سال کے اختتام تک 15 افراد لاپتا تھے۔اسی طرح جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے لاپتا شیعہ افراد کے تحت کراچی میں لاپتا افراد کے لواحقین کا دھرنا جاری ہے۔ جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے پیاروں کو بازیاب کرایا جائے۔نسانی حقوق کمیشن کے مطابق ایسے واقعات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے لوگ برے نتائج کے خوف سے ایسے واقعات کو رپورٹ نہیں کراتے۔گزشتہ رپورٹ میں انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے حکومتِ سندھ کو کہا گیا تھا کہ صوبے میں جبری گمشدگی سے متعلق تمام شکایات کی فوری اور آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں اور بہتر یہ ہے کہ یہ تحقیقات کسی آزاد اور مضبوط عدالتی ٹریبیونلز کے حوالے کی جائیں۔ جب کہ جبری گمشدگی کے واقعات کا شکار ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو ہر قسم کے دباو¿ سے بھی بچایا جائے تاہم اس بارے میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی۔
سندھ میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے کے لیے الگ سے قائم صوبائی انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ان کا ادارہ کم وسائل اور اپنے مینڈیٹ میں رہتے ہوئے لاپتا افراد کا سراغ لگانے اور انسانی حقوق کی پامالی روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ وہ اس بارے میں جلد صوبائی حکومت کو کمیشن کی جانب سے اہم سفارشات بھی بھیج رہی ہیں لیکن ان پر عمل کرنا حکومت کا کام ہے۔