India can play a crucial role in easing global strategic reliance on China, says British lawmakerتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی: برطانیہ کی حکمراں جماعت کنزرویٹیو پارٹی کے ایک با رسوخ برطانوی قانون ساز لاین ڈنکن اسمتھ نے کہا ہے کہ دنیا کی جمہوریاؤں کا چین پرتشویشناک حد تک اسڑیٹجک انحصار ختم کرنے میں ہندوستان اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ کنزرویٹیو پارٹی کے سابق لیڈر سر لاین نے نشاندہی کی کہ مطلق العنان چین نے اپنے رہنما شی جین پینگ کی قیادت میں دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کے لیے اپنی امنگ مخفی نہیں رکھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت چین صدر شی کے درمیان گذشتہ چند سلاوں میں مزید تانا شاہ اور عدم روادار ہو گئی ہے۔اور یہ بات میں ان کی اس بات اور رویہ کی روشنی میں کہہ رہا ہوں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ان کی حکومت کا منصوبہ ہے کہ 2040تک چین اقتصادی و فوجی اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔ اکتوبر2017میں پارٹی کے 19ویں اجلاس میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے شی نے ’جڑواں صد سالہ“مقاصد کا اعلان کیا تھا۔انہوں نے اعلان کیا تھا کہ2020تک چین سے غربت کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ ایک معتدل خوشحال معاشرے میں تبدیل ہوجائے گا۔1949میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کی صد سالہ تقریبات کے دوران چین دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ہر شعبہ حیات میں قیادت کرنے والا ملک بن جائے گا۔

سر لاین نے اس پر بھی روشنی ڈالی کہ چین دنیا کو اپنی عظیم توقعات و عزائم کو اپنے تاریخی مشن کے طور پر پیش کرنے کا کھلا مظاہرہ کر رہا ہے۔چین کی خود کو بحال کرنے کی یعنی فطری طور پر اپنے اس مقام پر لا کھڑا کرنے کی آرزو ہے جس سے وہ دنیا میںسب سے زیادہ غلبہ والا ملک کہلائے۔یہ چین کے جائز مقام حاصل کرنے سے متعلق ایک منطقی خیال ہے اور اس کے اطراف واقع ممالک آخر کار چین کی محدود حکمرانی کی پیش کش کردیں گے۔ وہ باقاعدہ آزاد ممالک ہیں جو چین پر انحصار کرتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بحیریہ جنوبی چین میں یہ سارا عمل جہاں اس کے مقبوضہ علاقے ہیں جن پر اس کا کوئی حق نہیں ہے اور جہاں اب وہ ان مصنوعی جزائر پر فوجی اسٹیشن قائم کر رہا ہے وہ سب اس عظیم پراجکٹ کا ایک حصہ ہیں۔

کئی مواقع پر شی نے اپنے ملک کو عظیم بنانے کو اپنا اسٹریٹجک مقصد بتایا۔جسے قرون وسطیٰ کے چین کی 21ویں صدی کے تصور سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔2009کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ”جب چین دنیا پر حکمرانی کرے گا: قرون وسطیٰ کے چین کا عروج اور مغربی دنیا کا خاتمہ“ کے مصنف مارٹن جیکس نے پیش گوئی کی تھی کہ حقیقت یہ ہے کہ چینی خود کو بنی نوع انساں میں سب سے برتر سمجھتے ہیں اور اس کا یہ اس عقیدہ،میں نسل پرستی کی بو آتی ہے ، باقی دنیا سے ٹکرائے گا جو سنگین مسئلہ ہوگا۔برطانوی سیاستداں لاین نے کہا کہ چین نے اسٹریٹجک میدانوں میں رابطے بنا لیے ہیں جس نے بنیادی طور پر چین پر انحصار کرنے والی آزاد دنیا بنا دی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیلی مواصلات کا ہی معاملہ لے لیا جائے اس شعبے کو سر تا پا محفوظ ہونا چاہئے ۔آپ اس کی حفاظت ادھوری نہیں چھوڑ سکتے۔آپ کسی طور پر ٹیلی مواصلاتی نظام میں کچھ غیر معتبر فروخت کنندہ برداشت نہیںکریں گے۔

مثال کے طور پر اب حکومت اس پر راضی ہو گئی ہے کہ وہ ہوائی کو ہٹا دے گی لیکن اس میں وہ وقت لے گی جبکہ ضرورت تیزی لانے کی ہے۔ سر لاین نے ایٹمی توانائی کو بھی ایسا شعبہ بتایا جس میں چین پر انحصار نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ چین پہلے ہی ایک ایٹمی پالنٹ (یو کے میں) زور شور سے شامل ہے۔اور ایک اور میں شامل ہونے والا ہے اور تیسرے کی تیاری میں ہے۔میرا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک جوہری ٹیکنالوجی ہے اور یہ ممکن ہے کہ تنازعہ کے دوران چین ان پلانٹوں کو بند کرنے کا اہل ہے اور ہم اسے دوبار چالو کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ سر لاین نے الیکٹرک کاروں جیسے نئے ترقیاتی ہراجکٹوں کی نشاندہی کی جن میں ہمارا چین پر انحصار آزاد دنیا کے انتخاب کو محدود کر دے گا۔ اس کے علاوہ دیگر شعبہ جات بھی ہیں مثلاً بجلی ستے چلنے والی گاڑیاں اور یہ بیٹری سے چلنے والی گاڑیاں ہیں ۔لیکن دنیا میں سب سے زیادہ بیٹریاں کو بنا رہا ہے۔ اس میں بھی چین کو سبقت حاصل ہے اور وہی سب سے زیادہ بیٹریاں بنا رہا ہے۔ علاوہ ازیں زمینی معدنیات کا شعبہ ہے اور 95فیصد کانوں پر چین کا کنٹرول ہے جن میں بیت کانگو میں ہیں جہاں کمسن بچوں کو ملازم رکھا جاتا ہے جو ذلت کی بات ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیش قیمت زمینی معدنیات اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، ایل ای ڈیز ،کیٹالسٹک کنورٹرز، الیکٹرسٹی جنریشن اور اسٹوریج اور بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے لیے درکار بیٹریاں سمیت کئی ٹیلی اجزاءتیار کرنے میں کام آتی ہیں۔سر لاین نے کہا کہ ہندوستان چین پر نہایت درجہ انحصار کے خاتمہ کے لیے منھ توڑ جواب دینے میں ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے۔مثال کے طور پر ہندوستان چین پر بین پارلیمانی اتحاد میں جس کے اتحادی جمہوریاؤں بشمول امریکہ ،جاپان ،آسٹریلیا اور کناڈا کے ساتھ سر لاین شریک چیرمین ہیں، شمولیت اختیار کر سکتا ہے۔ہندوستان آسٹریلیا، امریکہ اور یو کے جیسی جمہوریاو¿ں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہوئے خطہ اور بحیریہ جنوبی چین میں قیادت کا مظاہرہ کر سکتا ہے ۔اور اس سے چین کے جارحانہ رویہ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس پر غور و خوض کرنے کے لیے ہندوستان کے ساتھ فوری طور پر جامع اسٹریٹجک مذاکرات شروع کریں۔یہ معلوم کیے جانے پرکہ کیا برطانیہ ہند پیسیفک چہار فریقی گروپ ہندستان ، یو ایس، جاپان اور آسٹریلیا میں شمولیت اختیار کرے گا لاین نے کہا کہ مجھے نہایت مسرت ہو گی اگر ہم بھی اس میں شامل ہو جائیں۔ یہ کامل نتیجہ ہوگا۔
(مضمون نگار اتک انیجا اسٹرئیٹجک امور کے ماہر ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *