چنئی: ہندوستان کے تمل ناڈو میں سدھا دوائی سے روایتی طبی علاج کرنے والے ایک ڈاکٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جڑی بوٹیوں سے ایک ایسی دوا تیار کی ہے جو چین کے شہر ووہان میں ہلاکت خیز کورونا وائرس کے حملے سے وبائی شکل میں پھوٹ پڑنے والے مرض کے علاج کے لیے نہایت موثر ہے۔
واضح ہو کہ ابھی تک دنیا کا کوئی ملک اس کے علاج کے لیے کوئی موثر دوا یا ٹیکہ تیار نہیں کر سکا ہے۔چنئی کے رتنا سدھا اسپتال کے ڈاکٹر تھانیکا سلم وینی کو سدھا اور آیورویدک دواؤں کا 25سال کا تجربہ ہے۔ اے این آئی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وینی نے کہا کہ ہم نے جڑی بوٹیوں کے عرق سے ایک دوا تیار کی ہے جو کسی بھی قسم کے بخار کے علاج میں نہایت موثر ہے۔ کورونا وائرس کے لیے ابھی تک کوئی دوا نہیں ہے۔
چین کے شہر ووہان میں جہاں ا ب تک 100سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں کوئی چینی ماہر ابھی تک اس کا توڑ تلاش نہیں کر سکا ہے۔اور نہ ہی وہ سمجھ سکے ہیں کہ اس وب پر کیسے قابو پایا جائے۔ہماری جڑی بوٹیوں سے تیار کی گئی دوا ڈینگو، یرقان،میعادی بخار،ٹائیفائیڈ، ملیریا اور ہڈیوں کے بخار سمیت مختلف قسم کے بخار میں استعمال کی جاتی ہے۔ہم عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ و)اور حکومت چین سے کہنا چاہتے ہیںکہ ہماری دیسی دوا کورونا بخار کے علاج میں نہایت موثر ہے۔
سدھا ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جو دوا تیار کی ہے اس سے اس وائرس کے مریض کو 24تا 40گھنٹے کے اندر ص افاقہ ہو جائے گا۔ڈاکٹر وینی نے مزید کہا کہ جب ہم نے اپنی دیسی دوا سے ڈینگو وائرس کا علاج کیا تو پلیٹلیٹس کی قلیل تعداد کے شکار ،جگر کی غیر فعالیت،مامونی قلت اور خون کے سفید خلیے کم ہوجانے کا 24تا 40گھنٹے کے اندر افاقہ ہو گیا۔
سدھا دوائی ہندوستان کے تامل ناڈو میں روایتی میڈیکل پریکٹس ہے ۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی ہندوستان میں یہ طریقہ 4 ناتھوں اور 4 سدھوں نے تیار کیا تھا جبکہ جنوبی ہندوستان میں اسے 14 سدھوں (جسے ’سدھارس‘کہا جاتا ہے) نے تیار کیا تھا۔ ان سدھوں نے یہ علم شیو اور پاروتی سے حاصل کیا تھا۔ اس طبی نظام کو صرف ہندوستان ہی نہیں ، بلکہ دنیا کا قدیم ترین دواؤں کا نظام بھی سمجھا جاسکتا ہے۔کورونا وائرس کی وجہ سے سانس کا شدید انفیکشن ہوتا ہے اور تاحال اس سے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ویکسین یا علاج موجود نہیں ہے۔
اب تک ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد میں ادھیڑ عمر یا ایسے افراد جنھیں پہلے سے سانس کی بیماریاں تھیں، شامل ہیں۔کورونا وائرس کا تعلق وائرسز کے اس خاندان سے ہے جس کے نتیجے میں مریض بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ وائرس دسمبر2019سے قبل کبھی نہیں دیکھا گیا۔
نئے وائرس کا مختلف جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونا عام ہو سکتا ہے۔ یہ مرض چمگادڑوں سے شروع ہوا تھا اور وائرس بلیوں جیسے جانوروں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں تک پہنچا اس سے ان سب کا سے نظام تنفس شدید متاثر ہوا۔اور آج اس مرض سے نہ صرف پورا چین متاثر ہے بلکہ دنیا کے کئی شہروں میں یہ موذی کورونا وارس داخل ہو چکا ہے۔