سہیل انجم
اس وقت پوری دنیا مختلف مسائل سے دوچار ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک دہشت گردی دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی تھی۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ اس کا زور کچھ ٹوٹا ہے۔ لیکن ایک اور مسئلہ ہے جو نیا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ہے اور اس کی زد پر کوئی ایک ملک نہیں بلکہ پوری دنیا ہے۔ اس مسئلے سے نمنٹے کے لیے دنیا کے تمام ممالک کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ اگر دنیا نے اس کے تئیں سنجیدگی نہیں دکھائی تو اسے بہت سنگین نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس مسئلے کو بڑھانے میں مغربی ممالک کا زیادہ ہاتھ ہے۔ لیکن مغرب اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے ترقی پذیر یا چھوٹے ملکوں سے کہتا ہے کہ وہ اقدامات کریں۔ وہ ہندوستان پر بھی زور ڈالتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنگین صورت اختیار کرنے سے قبل اقدامات کرے۔ لیکن خود اس معاملے میں پیچھے ہے۔ حالانکہ اس مسئلے کو سنگین بنانے میں ہندوستان کا زیادہ ہاتھ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کے اثرات ہندوستان پر بھی پڑ رہے ہیں اور آگے مزید پڑنے کا اندیشہ ہے۔ وہ مسئلہ ہے ماحولیاتی تبدیلی کا۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں ایسا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس صدی کے اواخر تک دنیا کے نصف ممالک ناقابل رہائش ہو جائیں گے۔ انھیں میں ہندوستان بھی شامل ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے ’بین الحکومتی کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی‘ (آئی پی سی سی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان سمیت پورے جنوبی ایشیا پر ماحولیاتی تبدیلی کے سنگین اثرات مرتب ہونے والے ہیں۔ اس نے گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں تخفیف پر زور دیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ اس کی چھٹی جائزہ رپورٹ کا دوسرا حصہ ہے جس میں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات و خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آئی پی سی سی نے پہلی بار الگ الگ خطوں کا جائزہ لیا اور بڑے شہروں پر توجہ مبذول کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان عالمی سطح پر سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2050 تک نصف ملک ناقابل رہائش ہو جائے گا۔
رپورٹ میں دریاوں کے پانی میں عدم توازن کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050 تک دریائے گنگا میں پانی کی شدید قلت ہو جائے گی۔ لیکن اسی کے ساتھ بعض مقامات پر سمندروں کی سطح آب میں اضافہ بھی ہوگا جس کی وجہ سے ممبئی میں سیلاب کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ جب کہ احمد آباد کو شہروں کی حدت سے خطرہ ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ اگر گیسوں کے اخراج میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو 2050 تک پہنچتے پہنچتے ملک کی ساڑھے تین کروڑ سے زائد آبادی کو سالانہ ساحلی سیلاب کا سامنا رہے گا جب کہ صدی کے آخر میں پانچ کروڑ افراد اس خطرے سے دوچار ہوں گے۔رپورٹ میں انتباہ کیا گیا ہے کہ سطح سمندر میں اضافے سے 2050 تک صرف ممبئی کو 162 ارب سالانہ کا نقصان ہوگا۔ شہروں میں گرم ہواو¿ں اور لو کے تھپیڑوں میں تیزی آئے گی جس کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوگا۔ رپورٹ میں گرمی اور رطوبت کو یکجا کرکے ناپنے والے پیمانے ویٹ۔بلب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ویٹ۔بلب درجہ¿ حرارت کا 31 ڈگری پر پہنچ جانا انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر یہ درجہ¿ حرارت 35 ڈگری تک پہنچ جائے تو کوئی بھی انسان چھ گھنٹے سے زیادہ نہیں جی سکتا۔ رپورٹ کے مطابق اگر گیسوں کے اخراج میں وعدے کے مطابق تخفیف کی جاتی ہے تو بھی صدی کے آخر تک ہندوستان کے شمالی اور ساحلی علاقوں میں یہ درجہ¿ حرارت 31 ڈگری تک پہنچ جائے گا۔ لیکن اگر اخراج میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ درجہ¿ حرارت 35 ڈگری کی حد کو عبور کر جائے گا۔ اس مطالعے میں انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر گیسوں کے اخراج میں اضافہ جاری رہا تو لکھنو¿ اور پٹنہ میں ویٹ۔بلب درجہ¿ حرارت کے 35 ڈگری تک پہنچنے کی قیاس آرائی کی گئی ہے۔ جبکہ بھونیشور، چنئی، ممبئی، اندور احمد آباد میں 32 سے 34 ڈگری تک پہنچ جانے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں آسام، میگھالیہ، تری پورہ، مغربی بنگال،بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ، چھتیس گڑھ، اترپردیش، ہریانہ اور پنجاب جیسی ریاستوں میں بھی ویٹ۔بلب درجہ¿ حرارت میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آبی سطح میں عدم توازن پیدا ہو جانے کی وجہ سے زراعت پر اثر پڑے گا اور چاول کی پیداور میں 10 سے 30 فیصد اور مکے کی پیداوار میں 25 سے 70 فیصد کی کمی کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ملک ماہرین ماحولیات اس صورت حال سے بہت فکر مند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق آئی پی سی سی کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صورت حال بہت ناگفتہ بہہ ہے۔ آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوگا اس سے الگ ہٹ کر اس وقت بھی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا میں آفات کے آنے کا جو معاملہ ہے وہ بہت سنگین ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ موسم کی تبدیلی سے ساحلی علاقوں میں عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کے مطابق حکومت اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ہے۔ حکومت کا جو تازہ بجٹ آیا ہے اس کو کلائمیٹ ایکشن والا بجٹ کہا گیا ہے لیکن اگر ہم حقیقی صورت حال پر نظر ڈالیں تو عوام کو اپنی زراعت، ذریعہ معاش، پانی کے تحفظ اور درجہ حرارت کے سلسلے میں کیا کرنا چاہیے اس بارے میں اس میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ حکومت نے نیشنل کلائمیٹ ایکشن پلان کے لیے بھی بہت مختصر بجٹ رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں تخفیف کرنے کا مسئلہ بہت بڑا ہے۔ آئی پی سی سی کے مطابق جب تک گیسوں کا اخراج کم نہیں ہوگا درجہ¿ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری تک محدود رکھنا مشکل ہوگا۔لیکن ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت مغربی ممالک ہندوستان سے زیادہ گیس خارج کرتے ہیں لیکن پھر بھی آگے چل کر ہندوستان کو گیسوں کا اخراج کم کرنا ہوگا۔ یہاں پاور اسٹیشنز، گاڑیوں اور کیمیکل زراعت سے گیس کا اخراج بڑھ رہا ہے۔ اس کو کم کرنے پر حکومت کو توجہ دینی ہوگی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے میں حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اب بھی کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہے۔ رواں سال کے بجٹ کے مطابق 32 ہزار کلومیٹر ہائی ویز اور بنائے جائیں گے۔ اس سے نقل و حمل میں جو تیزی آئے گی اس سے بھی ماحولیات پر اثر پڑے گا۔ ہندوستان کی معیشت کس طرح ماحول دوست بن سکے اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ماہرین ا سبات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ مقامی شہریوں کی جانب سے متبادلوں کی تلاش ہو رہی ہے۔ کئی متبادل تلاش کیے گئے ہیں جیسے کہ بغیر کیمیکل کے زراعت اور قابل تجدید توانائی وغیرہ۔ اس کو توسیع دینے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کے مطابق ہندوستان کے دریاو¿ں میں کہیں پانی کی قلت ہو رہی ہے تو کہیں اضافہ ہو رہا ہے۔ یعنی اس میں عدم توازن دیکھا جا رہا ہے۔ کہیں کہیں گلیشئیرز چھوٹے ہوتے جا رہے ہیں اور دیہی علاقوں میں ندیوں اور نہروں میں پانی کی قلت ہو رہی ہے۔ البتہ کہیں کہیں پانی زیادہ بھی ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں سیلاب کا خطرہ بڑھے گا۔ان کے بقول دریاو¿ں کی صورت حال بہت خراب ہے۔ حکومت اس بات سے واقف ہے اس کے باوجود مناسب اقدامات کی کمی دیکھی جا رہی ہے۔ بڑے بڑے ڈیم بنائے جا رہے ہیں، پانی کے بہاو¿ کا رخ بدلا جا رہا ہے اور آلودگی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہ بات دریاو¿ں کے لیے بہت خطرناک ہے۔ حکومت نے بجٹ میں مدھیہ پردیش میں کین او ربیتوا دریاو¿ں کو ملانے کے لیے 40 ہزار کروڑ روپے کا بجٹ رکھا ہے اس پر بہت سے سائنس دانوں اور ماہرین معیشت نے اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ماحولیات پر منفی اثر پڑے گا۔ دریاو¿ں میں پانی کے بہاو¿ کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں ماہرین نے حکومت کو متعدد مشورے دیے ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمالیہ کے خطے میں راستے بنائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت ہوگی اور اس سے بلیک کاربن کا اخراج ہوگا۔ اس سے گلیشئیرز پر بہت اثر پڑتا ہے۔ لداخ میں جہاں پہلے ہی گلیشیئرز کی بری حالت ہے، بڑی بڑی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اس سے اور برا اثر پڑے گا اور دیہی علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہو جائے گی۔ آئی پی سی سی کی رپورٹ میں شہروں سے متعلق باب تحریر کرنے والے پروفیسر انجل پرکاش کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا شہری علاقہ دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ خطرے میں ہے۔
ان کے مطابق شہری آبادی 2020 میں 480 ملین تھی جو 2050 میں بڑھ کر 877 ملین ہو جائے گی۔ اس وقت ملک میں شہری کاری 35 فیصد ہے جس کے اگلے 15 برسوں میں 40 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔ جن شہروں میں آبادی کی مرکزیت ہے وہ زیادہ خطرے میں ہیں۔خیال رہے کہ ہندوستان نے گرین ہاو س گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے اپنے عہد کا بارہا اعادہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال نومبر میں پیرس کے شہر گلاسگو میں منعقد ہونے والے عالمی ماحولیاتی اجلاس میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ہندوستان گیسوں کے اخراج میں تخفیف کرکے 2070 تک نیٹ زیرو کا ہدف حاصل کر لے گا۔ یہ پہلا موقع تھا جب وزیر اعظم نے گلاسگو اجلاس میں گیسوں کے اخراج میں تخفیف کے لیے وقت کا تعین کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان 2030 تک اپنی توانائی کی 50 فیصد ضرورتیں قابل تجدید یا شفاف توانائی سے پوری کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ 2030 تک اپنے مجموعی متوقع کاربن اخراج کو ایک بلین ٹن تک کم کرے گا۔ توانائی کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے گزشتہ سال ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان اگلے دس برس میں گیس کے اخراج میں 35 فیصد کی کمی کا ہدف حاصل کر لے گا۔
ای میل:sanjumdelhi@gmail.com