سہیل انجم
اقوام متحدہ کو دنیا بھر میں ایک اہم بین الاقوامی ادارے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے چھ ضمنی ادارے ہیں جن میں جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کی ایک بین الاقوامی عدالت انصاف بھی ہے جو ہیگ میں واقع ہے۔ باقی تمام ادارے نیویارک میں ہیں۔ جنرل اسمبلی میں اس کے تمام ممبر ملکوں کو ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ جبکہ سلامتی کونسل میں پندرہ ارکان ہیں۔ جن میں سے پانچ مستقل ممبر ہیں اور دس عارضی۔ مستقل ممبران میں امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس ہیں۔ ان پانچو ںاراکین کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ یعنی اگر کسی مسئلے پر بحث ہو اور اس پر ووٹنگ کرائی جائے تو کوئی بھی ممبر اس کو ویٹو کر سکتا ہے یعنی اسے مسترد کر سکتا ہے۔ جب تک کہ پانچوں مستقل ارکان کی حمایت حاصل نہ ہو کوئی بھی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ سلامتی کونسل کے دس غیر مستقل اراکین کا انتخاب ہوتا ہے۔ اس وقت ہندوستان دو برسوں 2021-22 کے لیے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے سلامتی کونسل میں شامل ہے۔ اس سے قبل اسے سات مرتبہ غیر مستقل رکن کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس وقت اسے ایک اور اعزاز حاصل ہوا ہے۔ یعنی وہ ایک ماہ یعنی اگست کے لیے سلامتی کونسل کے صدر کے منصب پر فائز ہوا ہے۔ صدر کا انتخاب ملکوں کے نام کے پہلے حرف کی بنیاد پر باری باری سے کیا جاتا ہے۔ ہندوستان اگلے سال دسمبر میں ایک بار پھر سلامتی کونسل کا صدر بنے گا۔بین الاقوامی معاملات میں ہندوستان کے غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ کردار کی وجہ سے اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر تمام عالمی فورموں پر اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ جنگ و جدال کا مخالف اور مذاکرات کی مدد سے تنازعات کو حل کرنے کی پالیسی کا حامی ہے۔ وہ دوسرے ملکوں کے اندرونی امور میں مداخلت کے خلاف ہے اور ”جئیو اور جینے دو“ کے فلسفے میں یقین رکھتا ہے۔ وہ پوری دنیا کو ایک کنبہ تصور کرتا ہے اور اس کنبے کے ہر فرد کے، پرامن انداز میں زندگی گزارنے کا طرفدار ہے۔
اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے میں بھی اس کو ایک باوقار مقام حاصل ہے۔ وہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کا حامی ہے اور اسے آگے بڑھانے پر زور دیتا آیا ہے۔ عالمی سطح پر مزید فعالیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے۔ بیشتر ممالک اس کی اس امیدواری کے حامی ہیں لیکن ہند مخالف بعض طاقتیں اس کوشش کو ویٹو کرتی رہتی ہیں۔اب جبکہ اسے سلامتی کونسل کے صدر کا منصب حاصل ہوا ہے تو وہ غیر مستقل رکن کی حیثیت سے سلامتی کونسل کے پندرہ رکنی فورم میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی کے مطابق ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے ناتے بحیثیت غیر مستقل رکن جمہوریت، انسانی حقوق اور ترقی کے تمام بنیادی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے قبل فرانس اس کا صدر تھا۔ فرانس کی جانب سے یہ ذمہ داری بحسن و خوبی اسے سونپ دی گئی ہے۔ سلامتی کونسل کا ہر رکن ایک ایک ماہ کے لیے صدر کی ذمہ داری سرانجام دیتا ہے۔ روایات کے مطابق کونسل کا صدر مخصوص امور پر مباحثوں کا انعقاد کرتا اور سلامتی کونسل کی جانب سے بیانات جاری کیے جانے کی روایات کو آگے بڑھاتا ہے۔ صدر کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ٹی ایس تری مورتی نے کہا کہ ہندوستان دیگر ممبر ملکوں کے ساتھ کونسل کے کاموں کو مزید سودمند بنانے کی کوشش کرے گا۔ وہ مختلف امور میں میانہ روی اختیار کرے گا۔ مذاکرات کی وکالت کرے گا اور بین الاقوامی قوانین کے فروغ پر زور دے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایسے مہینے میں جبکہ ہم اپنا 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں، سلامتی کونسل کے صدر کا منصب ہمارے لیے ایک اضافی اعزاز ہے۔جبکہ ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے ہندوستان کی ترجیحات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہندوستان بحیثیت صدر میری ٹائم سیکورٹی، پیس کیپنگ یعنی جنگ زدہ ملکوں میں قیام امن اور انسداد دہشت گردی پر اپنی توجہ مرکوز کرے گا۔
ہندوستان 9 اگست کو ”عالمی امن اور سلامتی کے قیام اور میری ٹائم سیکورٹی“ کے موضوع پر ایک آن لائن مباحثے کا اہتمام کرنے جا رہا ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اس اجلاس کی پہلی بار صدارت کریں گے۔ جبکہ اس کے ایک اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے ایس جے شنکر اٹھارہ اور انیس اگست کو نیویارک جا رہے ہیں جہاں وہ ایک اجلاس کی صدارت کریں گے۔ میری ٹائم سیکورٹی پر توجہ مرکوز کرنے کے ہندوستان کے اعلان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسے جنوبی بحیرہ¿ چین میں جہاز رانی کے دوران بین الاقوامی قوانین کی پابندی عزیز ہے اور وہ جہاز رانی کے دوران سلامتی کو یقینی بنانے کا حامی ہے۔ جنوبی بحیرہ¿ چین اور ہند بحر الکاہل میں چین کی بڑھتی سرگرمیاں نہ صرف ہندوستان کے لیے بلکہ امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر متعدد ملکوں کے لیے باعث تشویش ہیں۔ چین کے توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا گیا ہے جسے کواڈ کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بھی چین کی توسیع پسندانہ کوششوں پر قدغن لگانا ہے۔تری مورتی کا کہنا ہے کہ میری ٹائم سیکورٹی ہندوستان کی اعلیٰ ترین ترجیح میں شامل ہے۔ سلامتی کونسل کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں حقیقت پسندانہ موقف اختیار کرے۔
مبصرین کے مطابق ہندوستان بحیثیت صدر چار ملکوں افغانستان، میانمار، یمن اور سیریا میں جاری جنگ یا تشدد کو ختم کرانے پر بھی زور ڈالے گا۔ ہندوستان کے ہاوسنگ اور شہری امور کے وزیر ہردیپ پوری نے اس سے قبل بحیثیت صدر ہندوستان کے کردار پر روشنی ڈالی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل اسے 2011 میں صدر کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ وہ اُس وقت سلامتی کونسل میں ہندوستان کے مستقل مندوب تھے۔ ہندوستان افغانستان میں قیام امن پر بھی زور دے گا۔ افغاسنتان کے وزیر خارجہ حنیف اتمار نے ایس جے شنکر کو فون کرکے افغانستان کے موضوع پر سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیے جانے کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت جبکہ افغانستان میں طالبان کے حملے بڑھ گئے ہیں اور آئے دن ان حملوں میں بے قصور افراد کی ہلاکت ہو رہی ہے، افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی اشد ضرورت ہے۔ انھوں نے ایسے وقت میں ایس جے شنکر کو فون کرکے اس مسئلے پر گفتگو کی جب طالبان نے ہرات، قندھار اور ہلمند سمیت ملک کے مختلف حصوں میں اپنی کارروایاں تیز کر دی ہیں اور وہ ملک کے بیشتر حصوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ ٹی ایس تری مورتی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی صورت حال سلامتی کونسل کے تمام ممبر ملکوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ حالیہ دنوں میں طالبان نے اپنے حملے تیز کر دیے ہیں جن میں بے قصور مارے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق ہندوستان افغانستان میں امن و سلامتی اور استحکام کے قیام کی ہر کوشش کی حمایت کرتا ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان نے افغانستان کی تعمیر و ترقی میں کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں۔ وہ ہمیشہ ایک پرامن، خوشحال، جمہوری اور مستحکم افغانستان کی وکالت کرتا رہا ہے۔
سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے بھی وہ اپنی یہ کوشش جاری رکھے گا۔اس کے علاوہ ہندوستان ان ملکوں میں جہاں تشدد یا جنگ جاری ہو قیام امن کی کوشش کرے گا۔ اس کو جنگ زدہ ملکوں میں پیس کیپنگ یا قیام امن کا خاصا تجربہ ہے۔ جنگ عظیم دوم میں ہندوستانی فوج کے ڈھائی ملین جوانوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاریخ میں وہ سب سے بڑی رضاکارانہ فوج تھی۔ جبکہ ایک لاکھ 80 ہزار ہندوستانی فوجی جوانوں نے امن بردار مشن میں حصہ لیا جو کہ دنیا کی سب سے بڑی نفری ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اب تک الگ الگ ملکوں میں 71 امن بردار افواج تعینات کی گئی ہیں جن میں سے 49 تعیناتیوں میں دو لاکھ سے زائد ہندوستانی فوجی جوانوں نے حصہ لیا ہے۔ لہٰذا جنگ زدہ ملکوں میں اس کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ میری ٹائم سکیورٹی، پیس کیپنگ اور انسداد دہشت گردی کے سلسلے میں اعلیٰ سطحی دستخطی مہم بھی چلائے گا۔ ہندوستان کئی عشروں سے دہشت گردی کے نشانے پر ہے۔ وہ مختلف عالمی فورموں پر انسداد دہشت گردی پر زور دیتا اور اس بات کی اہمیت جتاتا آیا ہے کہ اس عالمی لعنت سے نمٹنے کے لیے پوری دنیا کو متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مبصرین اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ ہندوستان سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے نمایاں کارنامے انجام دے گا اور اس کی کوششوں سے تینوں اہم شعبوں یعنی میری ٹائم سیکورٹی، جنگ زدہ ملکوں میں قیام امن اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کو اہم کامیابی حاصل ہوگی۔
sanjumdelhi@gmail.com