Indian-Americans dominations in Biden teamتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

دنیا کی سب سے قدیم اور عظیم جمہوریت یعنی امریکہ میں اقتدار کی منتقلی ہو گئی۔ حالانکہ اس مرحلے کی تکمیل سے قبل کچھ ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے لیکن امریکی عوام ان واقعات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ نئے صدر جو بائڈن اگر چہ 78 سال کے ہیں لیکن ان میں بڑا جوش و خروش ہے اور وہ ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاست داں ہیں۔ انھوں نے حلف لینے کے بعد جن فیصلوں پر دستخط کیے ان کی بالغ نظری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انھوں نے 17 ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جو انتہائی دوررس ثابت ہوں گے۔ انھوں نے حلف برداری کے بعد جو خطاب کیا اس میں متحد امریکہ پر زور دیا اور اتحادی ممالک سے مضبوط مراسم رکھنے کی اہمیت جتائی۔پوری دنیا کی نظریں امریکی صدارتی انتخاب، اس کے نتائج اور پھر نئے صدر و نائب صدر کی حلف برداری پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ انتخاب ہندوستان کے لیے بھی کافی اہمیت کا حامل رہا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ جو بائڈن نے نائب صدر کے منصب پر ایک ہندوستانی نژاد کملا ہیرس کا انتخاب کیا اور وہ کامیاب ہوئیں۔ ریاست تمل ناڈو کا ایک گمنام گاو¿ں ”تھولاسینتھوپورم“ کملا ہیرس کا آبائی وطن ہے۔ ان کی والدہ وہاں سے ہجرت کرکے جمائکا گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حلف برداری کے وقت ہندوستان کے عوام نے مسرت کا اظہار کیا اور بالخصوص ان کے آبائی گاو¿ں کے باشندوں نے جشن منایا۔

کملا ہیرس کے نائب صدر کا حلف لینے کے موقع پر ان کے آبائی گاو¿ں میں سڑکوں کو سجایا گیا اور مندروں میں ان کے لیے پوجا کی گئی۔ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کرکے خوشی کا اظہار اور روایتی کھانا ”موروکو“ بھی تیار کیا گیا۔ گاو¿ں میں اب بھی ان کے پوسٹرس لگے ہوئے ہیں۔ یہ پوسٹرس انتخابی نتائج کے آنے کے وقت سے ہی لگے ہوئے ہیں۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ انہیں فخر ہے کہ ان کے گاو¿ں سے تعلق رکھنے والی کملا آج امریکہ کی نائب صدر بن گئی ہیں۔ انہوں نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس معمولی سے گاو¿ں کو دنیا کے نقشے پر نمایاں کیا۔ اگر ہم دیکھیں تو بائڈن انتظامیہ میں ہندوستانی نژاد لوگوں کو کافی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے جو ٹیم بنائی ہے اس میں بیس ہندوستانی امریکی ہیں جو کلیدی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں جن میں مسلم کشمیری خاتون بھی ہیں۔ صدر بائڈن کی تقریر لکھنے والے بھی ہندوستانی نژاد ہیں۔ ان کا نام سی ونے ریڈی ہے اور وہ تیلنگانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔جوبائڈن نے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد جو تقریر کی وہ ہندوستان کے لیے کافی خوش آئند او رامید افزا ہے۔ انھوں نے وزیر خارجہ کے عہدے کے لیے اینٹونی بلنکن کو نامزد کیا ہے۔ اینٹونی بلنکن نے ہند امریکہ رشتوں کو آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔ انھوں نے اپنی نامزدگی کے موقع پر کہا کہ باہمی رشتوں کو امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور سابقہ حکومتوں نے ان کو مضبوط کرنے کے سلسلے میں اہم اقدامات کیے ہیں۔ جبکہ نامزد وزیر دفاع جنرل ریٹائرڈ، لائیڈ آسٹن نے ہندوستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی رشتوں کو اور آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔ جہاں تک صدر بائڈن کا تعلق ہے تو وہ کئی دہائیوں تک امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی میں رہے ہیں اور انھیں خارجہ امور میں زبردست تجربہ ہے۔ وہ آٹھ برسوں تک صدر اوبامہ کے دور میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچے تھے۔

یوں تو صدر بل کلنٹن کے زمانے سے ہی دونوں ملکوں کے رشتے آگے بڑھتے رہے ہیں۔ کلنٹن کے بعد جارج بش جونیئر کے زمانے میں دونوں ملکوں کے درمیان نیوکلیائی تعاون معاہدہ ہوا تھا۔ اس کے بعد اوبامہ کے دور میں رشتوں میں کافی گرمجوشی پیدا ہوئی۔ انھوں نے دو بار ہندوستان کا دورہ بھی کیا تھا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی باہمی تعلقات کی گاڑی کو آگے بڑھایا۔ انھوں نے بھی ہندوستان کا دورہ کیا۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور ٹرمپ کی باہمی دوستی بھی اس سلسلے میں کافی معاون ثابت ہوئی۔ صدر بائڈن اور کملا ہیرس کی حلف برداری کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ان دونوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے باہمی رشتوں کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کو اور مضبوط کرنے کے لیے وہ نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے مشتاق ہیں۔ جو بائڈن نے باہمی تجارت کو بھی مزید آگے بڑھانے پر زور دیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ صدر بائڈن ڈونلڈ ٹرمپ کی متعدد پالیسیوں میں تبدیلی لائیں گے۔ ان میں ویزا کا معاملہ بھی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ویزا قوانین میں سختی کی وجہ سے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہندوستانیوں اور آئی ٹی پروفیشنلس کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ نئی انتظامیہ اس میں تبدیلی لائے گی۔کوویڈ۔19 نے امریکہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس وبا سے امریکی شہریوں کی ہلاکت کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ جبکہ ہندوستان نے اس سلسلے میں جو فیصلے کیے ان کی وجہ سے یہاں ہلاکتوں کی تعداد کم رہی اور اب اس وبا کا زور بھی کافی حد تک ٹوٹ گیا ہے۔

ہندوستان کی یہ کامیابی دنیا سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اس حوالے سے صحت عامہ کے شعبے میں دونوں ملکوں میں تعاون میں اضافہ ہوگا۔ انڈو پیسفک خطے میں سیکورٹی کی صورت حال دونوں ملکوں کے لیے تشویشناک ہے۔ خاص طور پر جنوبی بحیرہ¿ چین میں چین کی بڑھتی سرگرمی اور اس کی جارحیت پسندی نے حالات کو مخدوش بنا دیا ہے۔ لہٰذا یہاں دونوں ایک دوسرے کے فطری اتحادی ہیں۔ دونوں اس بات سے متفق ہیں کہ چین کی بڑھتی فوجی قوت خطے کے لیے خطرناک ہے۔ اس لیے اس معاملے میں بھی دونوں ملکوں میں باہمی تعاون میں اضافہ ہوگا۔ بائڈن انتظامیہ خطے میں چین کی جارحیت سے چشم پوشی نہیں کر سکے گی۔ جو بائڈن ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاست داں ہیں۔ وہ کچھ معاملات میں اختلافات کو باہمی رشتوں کی راہ میں حائل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

حکومتی اہلکاروں کی نظریں باہمی تعلقات کے سلسلے میں پانچ اہم شعبوں پر مرکوز ہیں۔ یہ شعبے ہیں: اسٹریٹجک تعلقات، ماحولیات، توانائی اور تبدیلی آب و ہوا، ڈجٹل اینڈ آئی ٹی ایجوکیشن اور صحت عامہ۔ اس کے علاوہ ان کی نظر جون میں برطانیہ میں ہونے والے گروپ سات کے اجلاس پر بھی ہے جس میں شرکت کی دعوت برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن ہندوستانی وزیر اعظم کو دے چکے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس موقع پر امریکہ اور ہندوستان کے سربراہوں کی ملاقات ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر جو بائڈن انتظامیہ میں دونوں عظیم جمہوریتوں کے باہمی تعلقات کے مزید گہرے ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔جو بائڈن اور کملا ہیرس کی حلف برداری کو ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں کافی اہمیت دی گئی۔ تمام نیوز چینلوں نے اس تقریب کو براہ راست دکھایا اور ماہرین اور تجزیہ کاروں کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا کہ جو بائڈن کے دور میں دونوں ملکوں کے رشتے کیسے رہیں گے اور باہمی رشتوں کو آگے بڑھانے میں کیا چیلنجز درپیش ہوں گے۔ نئی دہلی سے شائع ہونے والے تقریباً تمام روزنامہ اخباروں نے اداریے اور خصوصی مضامین شائع کیے اور باہمی رشتوں کا جائزہ لیا۔ روزنامہ ”دی ہندو“ نے نئے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کے بیان کی روشنی میں لکھا ہے کہ یہ واضح ہے کہ ہند امریکہ اسٹریٹجک رشتے مضبوط بنے رہیں گے۔ کثیر الاشاعت اخبار ”ٹائمس آف انڈیا“ نے حلف برداری کی تقریب کی بڑے پیمانے پر کوریج کی۔ اس نے کملا ہیرس کے آبائی گاو¿ں کی ایک تصویر بھی شائع کی جس میں کچھ لوگ کملا ہیرس کا ایک بڑا سا پوسٹر اٹھائے ہوئے ہیں۔ اخبار نے اس کی تفصیل پیش کی ہے کہ حلف برداری کے موقع پر مذکورہ گاؤں میں کیسے جشن منایا گیا۔

اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جو بائڈن کی تقریر لکھنے والے ایک ہندوستانی نژاد ہیں۔ ان کا تعلق ریاست تیلنگانہ سے ہے اور ان کا نام سی ونے ریڈی ہے۔ وہ بائڈن کی تقریر لکھنے والی ٹیم کے ڈائرکٹر ہیں۔ اخبار کے مطابق ونے ریڈی پوری انتخابی مہم میں بائڈن ٹیم کے ساتھ تھے۔ وہ 2013 سے 2017 تک بائڈن کی نائب صدارت کی مدت میں بھی ان کے ساتھ رہے ہیں۔ تیلنگانہ میں واقع ان کے آبائی گاو¿ں کے لوگوں کو اس بات پر فخر ہے کہ وہاں سے تعلق رکھنے والا شخص امریکی صدر کا اسپیچ رائٹر ہے۔ ایک اور کثیر الاشاعت اخبار ”ہندوستان ٹائمس“ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ صدر کے منصب پر جو بائڈن کا فائز ہونا ان تمام لوگوں کی فتح ہے جو آزاد جمہوریت، اقدار پر مبنی مہذب سیاست، ذمہ دار قیادت اور حکومتی ڈھانچے میں اقلیتوں سمیت تمام طبقات کی شمولیت میں یقین رکھتے ہیں۔

بائڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ ان تمام اقدار کی مخالف سمت میں کھڑے تھے۔ وہ آمریت پسند تھے اور اقتدار میں رہنے کے لیے تمام آئینی اداروں کو نقصان پہنچانے کے خواہاں تھے۔ اخبار نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ بائڈن ہندوستان کے ساتھ دفاع، معیشت، ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے شعبوں میں مل کر کام کریں گے اور توقع ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار کے نصف آخر میں بھارت کا دورہ کریں گے۔ اخبار ”انڈین ایکسپریس“ نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور سکریٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا امریکہ میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ جبکہ موجودہ سفیر ترنجیت سنگھ سندھو 1997 سے 2000 تک امریکہ میں ہندوستانی سفارت خانہ میں فرسٹ سکریٹری اور جولائی 2013 سے جنوری 2017 تک ڈپٹی چیف آف مشن رہے ہیں۔ لہٰذا امریکہ سے تعلقات نبھانے کا انھیں خاصا تجربہ ہے۔ دوسرے اخباروں نے بھی اداریہ اور خصوصی مضامین شائع کرکے ہند امریکہ تعلقات کا جائزہ لیا ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *