نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کے دور وزارت عظمیٰ میں خارجہ پالیسیوں میں کی گئی تبدیلیوں کے نتائج اس شکل میں سامنے آنے لگے کہ نہ صرف یورپ اور مغرب میں بلکہ عام طور پر ہندوستان سے فاصلہ رکھنے والے اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ملکوں میں اس کا سفارتی قد بہت بڑھ گیا ہے اور اسے نہایت درجہ قدر و منزلت حاصل ہو گئی ہے۔ اور اسلامی ممالک نے بھی ہندوستان سے قربت بڑھانا شروع کر دی اور آج وہ اس قدر قریب آگئے ہیں کہ پاکستان بوکھلا گیا ہے اور سعودی عرب سے اس کے تعلقات میں تلخی آجانا اس کا بین ثبوت ہے۔عالم اسلام میں ہندوستان کی آؤ بھگت اور سفارتی اٹھان سے پاکستان کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں اور اس نے ان اسلامی ملکوں سے اپنے کیے کی معافی تلافی کرکے ایک بار پھر ان کا منظور نظر بننے کی کوشش شروع کر دی ۔ اور اس سمت پہلا قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان میں حکومتی کام کاج اور خارجہ پالیسی سازی میں زبردست عمل دخل رکھنے والی فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں پر مشتمل ایک وفد سعودی عرب کو منانے کے لیے ریاض پہنچ گیا لیکن بے نیل و مرام رہا اورفوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل فیض حمید سعودی عرب جاکر بھی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات نہ کر سکے کیونکہ ولیعہد نے مبینہ طور پر ان سے ملاقات کرنے سے انکا ر کر دیا تھا۔ اور یہ دونوں صرف سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے ہی ملاقات کر سکے۔ اور یہ پاکستان کی زبردست بے عزتی ہے کیونکہ جنرل باجواا اور جنرل فیض حمید اپنے ملک کی جانب سے اپنے کہے پر معافی مانگنے اور سعودی عرب سے عفو درگذر کرنے کی استدعا کرنے سعودی عرب گئے تھے۔ لیکن سعودی حکمرانوں نے ان دونوں کی درخواست مسلسل کے باوجود ان کو ملاقات کا وقت نہیں دیا اور وہ ناکام و نامراد پاکستان واپس آگئے۔وہ یقیناً وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو کوس رہے ہوں گے کہ نہ وہ بڑا بول بولتے اور نہ انہیں کسی دور کے اپنے محسن و مربی سعودی عرب کے ہاتھوں ایسی بے عزتی سہنا پڑتی۔
دوسری جانب نریندر مودی کے دور میں خارجہ پالیسیوں میں آنے والے بدلاؤ کے ایسے اثرات مرتب ہوئے کہ چھ مسلم ممالک نے انہیں اپنے ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز تک سے سرفراز کر دیا۔ سب سے پہلے2016میں سعودی عرب نے وزیر اعظم مودی کو اپنے اعلیٰ ترین اعزاز ساہ عبدالعزیز ساش ایوارڈ سے سرفراز کیا۔متحدہ عرب امارات بھی پیچھے نہیں رہا اور اس نے 2019میں مودی کو اپنا اعلیٰ ترین غیر فوجی اعزاز آرڈر آف زید ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ 2019میں ہی بحرین اور مالدیپ نے ،2018میں فلسطین نے اور اس سے قبل2016میں افغانستان نے اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزاز سے مودی کو سرفراز کیا۔جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی کے اسلامی ممالک سے کتنے گہرے رشتے ہیں۔جبکہ اس کے برعکس ہند مخالف راگ الاپتے رہنے کے باعث بین الاقوامی فورم پر پاکستان کو دھتکارا جانے لگا ۔ سعودی عرب کے ہاتھوں پاکستان کی یہ ذلت عالم اسلام میں تعلقات کے حوالے سے تبدیلی کی علامت ہے۔دنیا میں53اسلامی ممالک ہیں۔اور سعودی عرب کا ان سب میںنہ صرف سب سے زیادہ طاتور سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے ان تمام اسلامی ممالک کی سرداری کا بھی شرف حاصل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سعودی عرب دنیا کے تیل ذخائر کا 18فیصد کامالک ہے اور دیگر عرب ملکوں کے مقابلہ بہت زیادہدولتمند اور اقتصادی اعتبار سے سب سے مضبوط ہے۔علاوہ ازیں مسلمانوں کے دو مقدس ترین مقامات ملکہ مدینہ کے باعث وہ مذہب اسلام کا مرکز ہے۔ سوائے قطر، کویت اور عرق کے سعودی عرب کے عرب لیگ کے تمام ممالک سے خوشگواار تعلقات ہیں۔ اور دنیا کی مسلم آبادی کا 20فیصد حصہ ان عرب ممالک میں ہی ہے۔
تاہم پاکستان بھی تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی) کا رکن ہے ۔وہ انڈونیشیا کے بعدمسلم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرابڑا ملک ہے۔اور جوہری توانائی والا واحد اسلامی ملک ہے۔اسی وجہ سے بیشتر اسلامی ممالک پاکستان کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے ۔کیونکہ ہندوستان کے معاملہ پر سعودی عرب اور پاکستان میں تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔جس پر پاکستان بلبلا اٹھا اور 5اگست کو اس کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسے نہ صرف برا بھلا کہا بلکہ وارننگ بھی دی کہ اگر اس نے کشمیر معاملہ پر پاکستان کا ساتھ نہ دیا تو وہ وزیر اعظم عمران خان سے کہیں گے کہ وہ ان اسلامی ملکوں کا جو کشمیر معاملہ پر پاکستان کے ساتھ ہیں ، اجلاس بلائیں۔ہندوستان کے ذریعہ آرٹیکل370کی منسوخی کی پہلی سالگرہ کے موقع پر قریشی نے فروری کے اوائل میں کشمیر پر تنظیم اسلامی تعاون (او آئی سی)کی کونسل کا اجلاس طلب نہ کرنے کی پاکستان کی درخواست منظور نہ کیے جانے کے حوالے سے ایک ٹی وی انٹرویو میں سعودی عرب پر سخت تنقید کی تھی اور اسے انتباہ دیا تھا کہ اگر سعودی قیادت والی او آئی سی نے کشمیر پر ا پنی وزاراءخارجہ کونسل کا اجلاس نہیں بلا یا تو پاکستان کو مجبوراً ان اسلامی ممالک کا اجلاس بلانا پڑے گا جو کشمیر کے معااملہ پر اس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ ”آج اس پاکستان کو جس کے عوام مکہ مدینہ کے لیے جان قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں،سعودی عرب کی ضرورت ہے کہ وہ کشمیر معاملہ پر ایک قائدانہ رول ادا کر ے۔ اگر سعودی عرب اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا تو مجھے مجبوراً وزیر اعظم عمران خان سے کہنا پڑے گا کہ سعودی عرب ساتھ ہو یا نہ ہو آپ اپنا قدم اٹھائیں پہل کریں۔ سعودی عرب کے علاوہ انہوں نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا ساتھ نہ دینے کے لیے متحدہ عرب امارات کو بھی سخت سست کہا۔
قریشی کے بیان نے سعودی عرب کو ناراض کر دیا اور اس نے بیان جاری کر کے صاف صاف کہہ دیا کہ اب پاکستان کو قرضے یا تیل کی فراہمی نہیں کی جائے گی اور ساتھ ہی پاکستان سے یہ بھی کہا کہ وہ سعودی عرب کا ایک بلین ڈالر، جو نومبر2018میں سعودی عرب کی جانب سے دیے گئے6.2ارب امریکی ڈالر کا ایک جزو تھا، واپس کر ے جو پاکستان نے چین سے سود پر قرضہ لے کر واپس کر دیا۔یہ ہندوتانکی تاریخ میں اب تک سب سے بڑی سفارتی کامیابی تھی کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھاکہ مسئلہ کشمیر پر عرب ملکون نے کھل کر ہندوستان کی حمایت کی۔پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنا ہند مخالف راگ الاپنے کے لیے او آئی سی کا اعلیٰ سطحی اجلاس بھی نہیں بلوا سکا ۔ہندوستان پاکستان کو عرب بلاک سے، جو آج ہند کے ساتھ ایک چٹان کی مانند کھڑا ہے، الگ تھلگ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ لیکن عمران خان اپنی قوم کو یہ باور کرانے میں لگے ہیں کہ ان کے ملک کے سعودی عرب سے تعلقات آج بھی مضبوط ہیں ۔اور یہ خبریں کہ سعود ی عرب سے ہمارے تعلقات خراب ہو گئے ہیں محض افواہ اور سراسر جھوٹ ہے۔بلکہ ہمارے تعلقات تو بہت اچھے ہیں اور ہم مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔
