India's possible role in Russia Ukraine warتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

جب 24 فروری کو روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ہندوستان کی حکومت بہت شش و پنج میں تھی۔ ایک طرف امریکہ کے صدر جو بائڈن نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں ہندوستان سے بات کی جائے گی کہ وہ روس کی مذمت کرے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے فون پر بات کی اور ان سے کہا کہ ہندوستان روس کی مذمت کے سلسلے میں ایک ٹھوس موقف اختیار کرے۔ اسی دوران ہندوستان میں یوکرین کے سفیر ایگور پولیکھا نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی سے اپیل کی کہ وہ روس کے صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کا استعمال کریں اور روس سے جنگ بندی کے لیے آمادہ کریں۔ اس کے بعد یوکرین کے وزیر خارجہ نے بھی ہندوستان سے ایسی اپیل کی۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کی مذمت کے لیے ایک قرارداد پیش کی گئی جس پر ووٹنگ ہونی تھی۔ سب کی نظریں ہندوستان پر لگی ہوئی تھیں کہ وہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیتا ہے یا مخالفت میں۔ لیکن ہندوستان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ا س سے قبل اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی کہہ چکے تھے کہ ہندوستان جنگ کے خلاف ہے اور دونوں ملکوں کو بات چیت سے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ اس کے بعد مزید تین قراردیں اقوام متحدہ کے الگ الگ پلیٹ فارمز پر پیش کی گئیں اور ہندوستان نے کسی بھی قرارداد پر ہونے والی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ادھر وزیر اعظم نریدنر مودی نے روسی صدر پوتن سے فون پر بات کی اور تشدد بند کرنے پر زور دیا۔ لیکن امریکہ اور مغرب کے دباو¿ کے باوجود ہندوستان نے روس کے حملے کی مذمت نہیں کی۔

اس وقت ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہندوستان عالمی سطح پر الگ الگ تھلگ پڑ جائے گا۔ کیونکہ عالمی رائے عامہ روس کے حملے کے خلاف تھی اور اب بھی ہے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف یہ کہ ہندوستان کا موقف درست ثابت ہوا بلکہ اس تنازعے کو حل کرنے میں اس کا ایک ممکنہ کردار ابھر کر سامنے آیا۔ سابق خارجہ سکریٹری شیو شنکر مینن نے بھی اس کے موقف کو درست قرار دیا ہے۔ ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت کے اس موقف کی تائید کی البتہ انھوں نے یوکرین میں پھنسے ہوئے بیس ہزار سے زائد طلبہ کو وہاں سے نکالنے میں ہندوستان کی جانب سے ہونے والی تاخیر پر حکومت کی مذمت کی۔ بہر حال اب تمام طلبہ وہاں سے نکال لیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ ہندوستان اور روس میں تاریخی اور دوستانہ رشتے ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے سے ہی دونوں میں دوستی ہے۔ وزیر اعظم مودی اور صدر پوتن میں بھی گہرے تعلقات ہیں۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے بھی مودی کے اچھے رشتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یوکرین بار بار ہندوستان سے اپیل کرتا ہے کہ وہ روس سے گفتگو کرے۔ وزیر اعظم مودی پوتن سے تین اور زیلنسکی سے دو بار ٹیلی فون پر بات کر چکے ہیں۔ ہندوستان نے ایک غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا جس کی وجہ سے ہی اب اس سے اپیل کی جا رہی ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے اور سیز فائر کے لیے دونوں ملکوں کو راضی کرے۔ وزیر اعظم مودی نے دونوں رہنماوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات کرکے مسئلے کو حل کریں۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ براہ راست مذاکرات سے قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی۔وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم مودی نے صدر پوتن سے یوکرین کی صورت حال پر بات چیت کی ۔ پوتن نے روس اور یوکرین کے وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی تازہ صورت حال سے مودی کو آگاہ کیا۔

مودی نے یوکرین اور روس کے درمیان ہونے والی بات چیت کا خیرمقدم کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ مذاکرات سے جنگ بندی میں مدد ملے گی۔ سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ نریندر مودی بھی ثالثی کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ہندوستان متوازن موقف اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ مذاکرات اور سفارتی ذرائع سے مسئلے کو حل کرنے کے حق میں ہے۔ بعض دیگر ممالک بھی صدر پوتن اور وزیر اعظم مودی کے درمیان مضبوط تعلقات کے پیش نظر چاہتے ہیں کہ ہندوستان دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے۔ سفارت کاروں کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فریقین ہندوستان کی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق بعض دیگر ممالک نے بھی ہندوستان سے اپیل کی ہے کہ وہ روسی صدر سے بات کر کے انھیں یوکرین کے صدر سے براہ راست مذاکرات کے لیے آمادہ کریں۔ ادھر ہندوستان میں ایسا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر جنگ طول پکڑتی ہے تو اس کے ہندوستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کی وجہ سے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جب کہ غذائی سیکورٹی بھی متاثر ہو گی۔ یوکرین کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ہندوستان یوکرین کی زرعی پیداوار کے بڑے صارفین میں سے ایک ہے اور اگر جنگ جاری رہتی ہے تو ہمارے لیے نئی فصلوں کی بوائی مشکل ہو جائے گی۔ لہٰذا عالمی اور ہندوستانی غذائی سیکورٹی کے پیش نظر ضروری ہے کہ جنگ فوری طور پر بند ہو۔ایک سابق سفارت کار اور سینئر تجزیہ کار راجیو ڈوگرہ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے اس معاملے پر غیر جانبدارانہ موقف اختیار کیا ہے جو کہ امریکہ اور مغرب کے موقف کے برعکس ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے یوکرین اور روس دونوں نے ہندوستان پر اعتماد کیا ہے۔ اگر کوئی غیر جانبدار نہیں ہے تو وہ ثالثی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی اسے اپنا ثالث بنائے گا۔

اس وقت صورت حال بہت نازک ہے اور ایسے میں کسی کو بھی ٹیلی فون اٹھانے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے اور یہی ہوا ہے جو کہ ایک اچھی بات ہے۔ ان کے مطابق روس اور یوکرین کے صدور نے اس معاملے پر کسی دوسرے ملک کے ساتھ بات چیت نہیں کی۔ انھوں نے اگر ہندوستان سے رابطہ قائم کیا ہے تو اس کا مطلب دونوں کو اس پر اعتبار ہے۔ ہندوستان کو بھی دونوں رہنماو¿ں سے بات چیت کرنے کی ضرورت تھی تاکہ جو اسٹوڈنٹس یوکرین میں پھنسے ہوئے تھے ان کو بحفاظت واپس لایا جائے۔ اب کافی تعداد میں ان کو لایا جا چکا ہے۔ راجیو ڈوگرہ کے مطابق اس معاملے میں امریکہ اور مغرب کا موقف روس کے خلاف ہے۔ جبکہ ہندوستان سیکورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کے دیگر پلیٹ فارمز پر روس کے خلاف پیش کی جانے والی قراردادوں پر ووٹ دینے سے غیر حاضر رہا۔ اسے یہاں اچھی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اب دنیا کے ملکوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ ہندوستان ایک غیر جانبدار ملک ہے۔ وہ کسی دوسرے ملک میں مداخلت کے خلاف ہے اور ہر ملک کے اقتدار اعلیٰ اور علاقائی خود مختاری کے احترام کی بات کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یوکرین اور روس نے سوچا ہو کہ ہندوستان اس معاملے میں کوشش کرے اور تجاویز پیش کرے تو ممکن ہے کہ کوئی حل نکل آئے۔ اس معاملے میں ہندوستان کا موقف اگرچہ مغرب کی توقع کے خلاف ہے لیکن یوکرین اور روس کو اس بات پر اطمینان ہونا چاہیے کہ ہندوستان نے کسی فریق کی مخالفت یا حمایت نہیں کی۔ یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے کہ دونوں ہندوستان سے چاہتے ہیں کہ وہ سیز فائر کرانے کی کوشش کرے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس جنگ کا جاری رہنا ہندوستان کے مفاد کے بھی خلاف ہوگا۔ حالانکہ یوکرین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جنگ سے ہندوستان کی غذائی سیکورٹی پر اثر پڑے گا لیکن میں ایسا نہیں مانتا۔ ہندوستان اجناس کے معاملے میں خود کفیل ہے۔ وہ دوسرے ملکوں کو غلہ برآمد کرتا ہے۔

اس نے ابھی حال ہی میں افغانستان کو پچاس ہزار ٹن گندم سپلائی کی ہے۔ البتہ دوسرے ملکوں کی غذائی سیکورٹی پر اثر پڑے گا۔ اگر جنگ چلتی رہتی ہے تو ہندوستان کی معیشت متاثر ہو سکتی ہے۔ ابھی سے تیل، میٹل اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا یہاں کی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ضرور ہے۔ اس لیے جنگ بندی ہندوستان کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک سابق فوجی عہدے دار لیفٹننٹ جنرل پرکاش مینن کا کہنا ہے کہ ہندوستان روس یوکرین جنگ کو یوروپی طاقتوں کے درمیان تاریخی تنازعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ ان کے مطابق حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ روس کے اس قدم کو حملہ قرار دیتا لیکن وزیر اعظم مودی نے روس اور یوکرین کے صدور سے بات چیت کے دوران سیز فائر پر زور دیا ہے۔ انھوں نے ایک ویب سائٹ ”دی پرنٹ“ کے لیے لکھے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ اس وقت ہندوستان سلامتی کونسل کا ایک منتخب رکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ صورت حال کو بہتر بنانے میں کیا تعاون دے سکتا ہے۔ ان کے مطابق ہندوستان کو سلامتی کونسل میں فوری سیزفائر کے لیے ایک قرارداد پیش کرنی چاہیے۔ سیز فائر امن کے طویل راستے پر ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق روس ایسی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا بھی امکان ہے کہ چین سیز فائر کی تجویز کی حمایت کرے۔ اگر روس ویٹو کرتا ہے تو وہ عالمی جذبات کے منافی ہوگا او راس کا کریملن پر اثر پڑ سکتا ہے۔ پرکاش مینن کے مطابق روس کے ویٹو کی صورت میں بھی ہندوستان سیزفائر کی اپنی اپیل جاری رکھ سکتا ہے۔ کیونکہ سلامتی کونسل میں ہندوستان واحد ملک ہے جس کے ناٹو ممالک، روس اور یوکرین سے نسبتاً اچھے تعلقات ہیں۔ لہٰذا ہندوستان کی سفارتی کوششیں اس وقت تک جاری رہنی چاہئیں جب تک کہ وہ بے اثر نہیں ہو جاتیں۔ اور اگر وہ ناکام ہو جاتی ہیں تو کم از کم ہم مستقبل میں خود سے تو کہہ سکیں گے کہ ہم نے عالمی امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *