15 people dead, 19 missing after Indonesian ferry capsizes off Sulawesi islandتصویر سوشل میڈیا

جکارتہ(اے یو ایس ) انڈونیشیا کے سولاویسی جزیرے میں 48 مسافروں کو لے جانے والی لکڑی کی کشتی ڈوبنے کی وجہ سے 15 افراد ہلاک ہوگئے۔ انڈونیشیا کی نیشنل ریسکیو ایجنسی کے حکام کا کہنا ہے کہ سولاویسی جزیرے سے گزرنے والی لکڑی کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں 15 افراد ہلاک ہوگئے جن کی لاشیں نکالی گئی ہیں۔انڈونیشیا کی مقامی ریسکیو ایجنسی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کشتی میں 48 افراد سوار تھے جو کہ اتوار کے کی رات حادثے کا شکار ہوگئی۔حکام نے کہا کہ 6 افراد کو ریسکیو کرکے علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ کشتی ڈوبنے کی وجوہات کی تفتیش کی جارہی ہے۔

جنوب مشرقی سولاویسی میں کیندری شہر میں مقامی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کے سربراہ محمد عرفہ نے بیان میں کہا کہ 27 دیگر مسافروں کی شناخت کر لی گئی ہے۔اس سے قبل ریسکیو ایجنسی نے کہا تھا کہ 19 مسافر لاپتا ہیں جن کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں، لیکن محمد عرفہ نے کہا کہ اب آپریشن مکمل اور بند کردیا گیا ہے۔ریسکیو ایجنسی کے ترجمان نے کہا کہ کشتی مونا جزیرے پر سینٹرل بیوٹن ریجنسی میں لانٹو اور لگیلی گاو¿ں کے درمیان ایک خلیج کو عبور کر رہی تھی۔ترجمان نے بتایا کہ قبل ازیں مسافروں کو لاپتا تصور کیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے خود کو ریسکیو کیا تھا اور جب وہ زمین پر پہنچے تو اپنے اپنے گھر واپس چلے گئے۔ترجمان کے مطابق کشتی لکڑی کی بنی ہوئی تھی، تاہم مقامی میڈیا کے ان دعووں کی تردید کی کہ کشتی میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔

مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ دیہاتی ایک مقامی تقریب منانے کے لیے سفر کر رہے تھے اور گنجائش سے زیادہ کشتی میں سوار ہوگئے جو کہ راستے میں ہی حادثے کا شکار ہوگئی۔ریسکیو ایجنسی نے متعدد لاشوں کی تصاویر بھی جاری کی جن کو مقامی ہسپتال میں رکھا گیا تھا۔خیال رہے کہ 17 ہزار جزیروں والے ملک انڈونیشیا میں کشتی ڈوبنے کے واقعات عام ہیں جہاں لوگ غیر معیاری حفاظتی اقدامات کے باوجود بھی چھوٹی کشتیوں پر سفر کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔2018 میں دنیا کی گہری ترین جھیلوں میں شمار ہونے والے جزیرے سماترا میں ایک فیری ڈوبنے سے 150 سے زائد افراد ڈوب گئے تھے۔گزشتہ سال مئی میں ایک فیری جس میں 800 سے زائد افراد سوار تھے وہ مشرقی نوسا ٹینگ گارا صوبے کے قریب گہرے پانی میں ڈوب گئی اور دو دن تک پھنسی رہی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *