کابل: (اے یو ایس ) نفیسہ کا بھائی افغانستان میں طالبان کا حامی ہے۔ ایسے میں وہ بھائی کی نظر سے اپنی کتابیں چھپانے کے لیے بہترین جگہ باورچی خانہ کو قرار دیتی ہیں کیوں کہ افغان مرد عمومی طور پر باورچی خانے میں نہیں جاتے۔افغانستان میں گزشتہ برس اگست میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد نفیسہ کی طرح ہزاروں افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔ البتہ ان کے علم کے حصول کی خواہش کم نہیں ہوئی ہے۔خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق نفیسہ (جو ان کا اصل نام نہیں ہے) بتاتی ہیں کہ لڑکوں کا مطبخ میں کوئی کام نہیں ہوتا، اسی لیے وہ اپنی کتابیں بھائی سے وہاں پر چھپا کر رکھ سکتی ہیں۔
نفیسہ اپنے خاندان کے ساتھ ملک کے مشرق میں ایک دیہی علاقے میں مقیم ہیں، جہاں ایک خفیہ اسکول قائم ہے اور وہ وہاں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں۔اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ اگر میرے بھائی کو اس بارے میں معلوم ہو گیا تو وہ مجھ پر لازمی تشدد کرے گا۔ طالبان نے اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد افغان لڑکیوں اور خواتین کے حوالے سے انتہائی سخت اقدامات کیے ہیں اور وہ ان پابندیوں کو مذہب کے مطابق بھی قرار دے رہے ہیں۔
طالبان کی اقدامات کے سبب خواتین کی عوامی سطح پر موجودگی ختم ہو گئی ہے۔خواتین پر پابندی عائد ہے کہ وہ کوئی بھی طویل سفر کسی مرد محرم کے بغیر نہیں کر سکتیں۔ان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ حجاب کریں گی اور اگر ممکن ہو تو برقع پہنیں۔ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ خواتین کے لیے بہتر ہے کہ وہ گھروں تک محدود رہیں۔ان سب اقدامات میں بد ترین پابندی لڑکیوں کی تعلیم پر عائد کی جانے والی پابندی قرار دی جاتی ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند ہیں۔ البتہ ملک کے کئی علاقوں میں ایسے خفیہ اسکول پھیل رہے ہیں جو کہ گھروں میں بنائے جا رہے ہیں اور وہاں چھپ کر لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
