جب وزیر اعظم عمران خان نے 21 اپریل کو بجلی کے شعبے میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے کی اجازت دی قوم کو معلوم ہوا کہ انڈی پنڈینٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پی ) کو قرض اور سبسڈی دیئے جانے کی وجہ سے قومی خزانے کو کم از کم 4 کھرب روپے کا نقصان ہوا۔
278 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2007 سے لے کر 2019 تک بجلی کے شعبے کے لئے مجموعی بجٹ میں سبسڈی اور دیگر لیکویڈیٹی انجیکشن کی شکل میں 3.202 روپے مختص کیے جانے کے باوجود بجلی کے شعبے کی نااہلیوںکی وجہ سے تقریباً 370 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہوا۔ایس ای سی پی کے سابق چیئرمین محمد علی کی سربراہی میں کمیٹی نے نشاندہی کی کہ پاکستانیوں کو پورے خطے میں سب سے زیادہ مہنگی شرح پر بجلی مل رہی ہے جبکہ کچھ نجی کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ بہتر نرخ مقرر کرانے کو یقینی بنانے کے لئے تیل کے جھوٹے اعدادوشمار فراہم کرتی ہیں۔
کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ 1994 کی بجلی کی پالیسی کی روشنی میں بجلی پیدا کرنے والی 16 نجی کمپنیوں (آئی پی پی) نے 60 ارب روپے کے قریب سرمایہ کاری کی اور 400 ارب روپے سے زیادہ کی کمائی کی۔ کمیٹی نے مزید کہا کہ ان نجی کمپنیوں میں سرمایہ کار ی کر نے والوں نے اپنے کاروباری شراکت داروں کو 22 گنا منافع دیا۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ماہ فاقی حکومت نے چینی اور گندم کے بحران کی، جس نے جنوری میں پورے ملک کے لوگوں کو بری طرح متاثر کیا تھا،اعلیٰ سطحی انکوئری کی رپورٹیں بھی اس ماہ عام کر دی ہیں۔