دوبئی: سوشل میڈیا پر پیر کے روز جاری کی گئی خبروں اور دکھائی گئی ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی سلامتی دستوں نے متعدد کرد شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف نہایت سخت موقف اختیا کرتے ہوئے اپنے کریک ڈاو¿ن میں شدت پیدا کر دی ہے ۔اخلاقی پولس کی حراست میں 22سالہ مہساامینی کی موت کے بعد وسیع پیمانے پر کیے جانے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے جگہ جگہ سلامتی د ستوں کے اہلکاروں کو کارروائی کرتے دیکھا گیا۔
واضح ہو کہ گذشتہ ماہ ایران کے کرد علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی کو ا بے حجاب اور نامناسب لباس پہنے گھومنے پرخلاقی پولس نے گرفتار کر لیا تھا جہاں تین روز کے بعد م پولس حراست میں ہی مہا کی موت ہوجانے کے بعد سے ایران بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ان مظاہروں کو 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ کے لیے اب تک کے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک سے تعبیر کیا جا رہاہے۔
بی بی سی کے مطابق امینی کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور انھیں انتباہ دیا گیا ہے کہ وہ مظاہروں میں شامل نہ ہوں۔عراق کے کردستان خطہ میں رہائش پذیر اس کے کزن عرفان مرتضیٰ نے کہا کہ ان کے کنبہ پر اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران کی طرف سے بہت زیادہ دباو¿ ہے، اس لیے ہم بیرون ملک کی انسانی حقوق کی تنظیموں یا چینلز سے بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس کی موت کے حوالے سے بیرون ملک کے کسی ادارے یا تنظیم سے بات کرتے ہیں۔