واشنگٹن:(اے یو ایس) امریکہ اور ایران اس ہفتے ویانا میں دوسرے مرحلے کے بالواسطہ مذاکرات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اسی دوران چند تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز، ایران کی نطنز جوہری تنصیب پر ہونے والے حملے سے ایران کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے، جب کہ چند دیگر کے نزدیک بات چیت کے نتائج کا سارا دار و مدار ایران کے جواب پر ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کا پیر کے روز کہنا تھا کہ امریکہ کو توقع ہے کہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والی بالواسطہ بات چیت بدھ کے روز طے شدہ شیڈیول کے مطابق منعقد ہو گی۔ دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ بات چیت کا پہلا مرحلہ 6 سے 9 اپریل تک ویانا ہی میں منعقد ہوا تھا، جس کے ثالث کار، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس کے نمائندے تھے۔وائس آف امریکہ کے نامہ نگاروں کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بالواسطہ بات چیت کے ذریعے، امریکہ اور ایران دونوں ہی ایک دوسرے کو سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے میں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس بات چیت میں ایران کا موقف ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اس پر عائد پابندیاں نرم کریں جب کہ امریکہ کا موقف ہے کہ ایران پہلے اپنی یورینیم افزودگی کے لیے طے کی گئی حدود کا احترام کرے۔امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایران پر پابندیاں عائد کر دی تھیں بلکہ انہیں مزید سخت کر دیا تھا۔ ایران نے ان پابندیوں کو رد کرتے ہوئے اور اپنے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔جین ساکی کا کہنا تھا کہ توقع کی جا رہی ہے کہ معاہدے میں واپسی کے لیے ہونے والی سفارتی بات چیت طویل ہو گی، اور امریکہ کو اس میں شمولیت کے حوالے سے کسی تبدیلی کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا۔نطنز جوہری تنصیب پر ہونے والے حملے کے بعد، ایران نے ابھی تک کھلے عام دوسرے مرحلے کی بات چیت میں اپنی شمولیت کے حوالے سے کسی تبدیلی پر کوئی بات نہیں کی۔ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے جوہری پلانٹ کے ذریعے بجلی کی فراہمی کے نیٹ ورک کو سبو تاڑ کرنے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے، جس سے نطنز کے جوہری پلانٹ کا پورا علاقہ ہی تاریکی میں ڈوب گیا ہے۔
انہوں نے اس حملے کو جوہری دہشت گردی قرار دیا ہے۔اسرائیل نے نہ تو اس حملے کی تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید۔ اسرائیل کے عہدیدار طویل عرصے سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے کسی عسکری کارروائی سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ تاہم اسرائیلی عہدیدار عمومی طور پر ایران کے خلاف کسی کارروائی کی تصدیق کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام توانائی کے حصول جیسے پر امن مقاصد کے لیے ہے۔ایرانی عہدیداروں نے انتباہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل سے اس حملے کا بدلہ لیں گے۔بین الاقوامی اٹامک انرجی کمیشن آئی اے ای اے کے سابق کنسلٹنٹ بہروز بیات نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے خیال میں ایک دھماکے سے نطنز کی جوہری تنصیب میں یورینئیم افزودہ کرنے والے سینٹری فیوجز کو بجلی کی سپلائی معطل ہوئی، اس لئے ممکن ہے کہ اس سے پانچ ہزار سینٹری فیوجز ناکارہ ہو گئے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہوا ہے تو ان کی مرمت میں کئی مہینے لگیں گے، اور ایران کا یورینئم افزودگی کا پروگرام موخر ہو جائے گا۔امریکی عہدیداروں کے مطابق، ایران اتنا یورنئیم افزودہ کرنے سے چند ماہ کے فاصلے پر تھا، جس سے ایک جوہری بم بنایا جا سکے۔بہروز بیات کے مطابق، نطنز پر ہونے والے حملے سے ایران کے سپریم لیڈر ا?یت اللہ علی خامنائی کو یہ پیغام ملا ہے کہ ایران ابھی یورینئیم افزودگی کی اس منزل سے دور ہے۔اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی سٹڈیز سے وابستہ تجزیہ کار ایل داد شاوِت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ شاید ایران کے ساتھ معاہدے میں واپسی کے سمجھوتے پر پہنچنے کے دباو¿ میں ہو گی اور اس سے پہلے کہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہو، ممکن ہے کہ وہ معاہدہ کر لے۔.”اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے میں واپسی کی بات چیت پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کا قانونی جواز مل جائے گا۔وائس آف امریکہ کی لنڈا گریڈسٹائن کے مطابق، امریکہ کے وزیر دفاع پیر کے روز اسرائیل کے دورے پر پہنچے ہیں تا کہ اسرائیلی عہدیداروں سے ایران کے معاملے پر بات چیت کر سکیں۔وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، بائیڈن انتظامیہ کے پہلے عہدیدار ہیں جو ایران کے دورے پر گئے ہیں۔ انہوں نے براہ راست تو ایران کا نام نہیں لیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے اور اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گانٹز کے درمیان علاقے کے سیکیورٹی سے متعلق چلینجز پر بات چیت ہوئی ہے۔