تہران (اے یو ایس)امریکی اخبار’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں حکومت نام نہاد “مذہبی پولیس” کی جگہ سڑکوں پر نگرانی کے کیمرے نصب کر رہی ہے تاکہ خواتین کی لباس کے سرکاری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نظر رکھی جا سکے۔ اس سے قبل ایرانی پبلک پراسیکیوٹرنے مذہبی پولیس’گشت ارشاد‘ کو ختم کر دیا تھا۔
اخباری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی حکومت نے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی پر گرفتاری کے بجائے خواتین کو جرمانوں اور بیرون ملک سفر پرپابندی جیسی سزائیں سنانے کے قوانین وضع کرنے کی تیاری شروع کی ہے۔اخبارنے کہا کہ ایران میں مسلسل مظاہرے حکومت کی شرمندگی کوبے نقاب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تہران کی حکومت حجاب کے ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین پر پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
تہران حکومت انہیں گرفتاری کی جگہ سفر پر پابندیوں اور جرمانوں کی سزائیں دے گی۔نیم سرکاری “سٹوڈنٹ نیوز” ایجنسی نے ایران کے ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹرکے حوالے سے بتایا کہ ایرانی پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے پولیس کو نئی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ملک کے خواتین کے ضابطہ لباس کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو گرفتار کرنے سے گریز کرے بلکہ ان پر جرمانے عائد کرے۔جہاں تک خواتین پرجرمانے عائد کرنے کے لیے ان کی نگرانی کے طریقہ کار کا تعلق ہے تو ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے بتایا کہ حکومت نے حفاظتی نگرانی کے کیمروں کا نیا ہتھکنڈہ استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
ٹریفک کی خلاف ورزیوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کیمرے اس کام کو منظم طریقے سے انجام دے سکتے ہیں تاکہ ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین پر نظر رکھی جا سکے اور پولیس اور شہریوں کے درمیان ایک اور براہ راست تصادم سے بچا جا سکے۔ایرانی پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے ”مذہبی پولیس“کو تحلیل کیے ہوئے صرف چند دن ہی گزرے ہیں جب حکومت نے خواتین کی نگرانی کے لیے کیمرے لگانے شروع کردیے ہیں۔ خواتین کو موبائل فون پر دھمکی آمیز پیغامات کے ساتھ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ لباس کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں یا سزاو¿ں کے لیے تیار رہیں۔