کوئٹہ: پاکستان کی سرحد کے قریب واقع ایک جنوب مشرقی ایرانی شہر زاہدان میں احتجاجیوں کی پکڑ دھکڑ اور پر تشدد وارداتوں کے درمیان ایران نے پاکستان سے ملنے والی اپنی سرحدی گذرگاہ کو سیل کر دیا۔یہ سرحدی راہداری زاہدان سے تقریباً 90 کلومیٹر دور تفتان میں ہے۔جمعہ کی نماز کے بعد ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے داالخلافہ میں اس وقت تشدد پھوٹ پڑا جب شہر کی مکی مسجد میں نمزیوں نے ایک مقامی فوجی کمانڈر کے ہاتھوں ایک15سالہ بچی سے کی گئی جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج کی کال دی۔
واضح ہو کہ جمعہ کے روز ہونے والی جھڑپوں کے دوران پاسداران اسلامی انقلاب ایران کے صوبائی انٹیلی جنس سربراہ علی موسوی کو گولی مار دی گئی انہیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں مردہ قرار دیا گیا تھا۔ جیش العدل نام کے انتہا پسند گروپ نے، جس کا کہنا ہے کہ وہ سیستان اور بلوچستان کی آزادی اور بلوچ عوام کے لیے زیادہ حقوق کے لیے لڑ رہا ہے، اس قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ یاد رہے کہ بلوچ صوبے میں سب سے بڑے نسلی گروہ ہیں۔پاکستانی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ایرانی حکام نے زاہدان سے تقریباً 90 کلومیٹر دور تفتان میں سرحدی گزرگاہ کو سیل کر دیا اور وہ پاکستان سے ایران میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔