تل ابیب:(اے یو ایس ) اسرائیل کے سابق فوجی سربراہ گاڈی آئزن کوٹ نے اعتراف کیا کہ اسرائیل ایران کو جوہری صلاحیتوں کے حصول سے روکنے کے لیے مختلف کارروائیاں کرتا رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے خلاف اسرائیل کے تقریباً سبھی آپریشن خفیہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ اگراسرائیل ایران کے خلاف کارروائیاں نہ کرتا تو تہران 10 سال پہلے ایٹمی طاقت بن چکا ہوتا۔آئزن کوٹ کا یہ بیان نتانیہ کالج میں سلامتی اورتزویراتی امور سے متعلق ڈاگان کانفرنس سے خطاب میں سامنے آیا۔ ان کے بیان سے سابق وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے بیانات کوتقویت ملتی ہے تاہم موجودہ وزیراعظم نفتالی بینیٹ کا موقف مختلف ہے۔ موجودہ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کے دور میں ایران کے جوہری معاملے کو نظرانداز کیا گیا۔
اسرائیل کے موقر عبرانی اخبار اسرائیل ہیوم کے مطابق بینیٹ اور ان کی حکومت کے متعدد وزرا نے نیتن یاہو پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ایران کے خلاف فوجی آپشن بنانے کے لیے بجٹ مختص نہیں کیا، جس کی وجہ سے وہ جوہری بم بنانے کے قریب پہنچ گیا۔دوسری جانب نیتن یاہو کے قریبی لوگوں کا کہنا تھا کہ موجودہ اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایویو کوچاوی نے رقم کو اسرائیلی فوج کی دیگر ضروریات کے لیے بھیجنے پر اصرار کیا۔
موجودہ اسرائیلی حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اسرائیل کے دباؤ پر جوہری معاہدے سے امریکی دستبرداری ایک ا سٹریٹجک غلطی تھی، کیونکہ نیتن یاہو نے واشنگٹن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے برسراقتدار آنے کے امکان کو مدنظر نہیں رکھا جو ایران کے خطرے کو یکسر مسترد کرتی اور ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالف ہے۔نیتن یاہو کے گرد گھیرا تنگ کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ایران کے خلاف کسی فوجی خطرے کی دھمکی نہیں دیتی۔اس کے خیال میں یہ کوئی ناگزیر مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ اسرائیلی حکومت کے رویے کے نتیجے میں ہونے والی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ایک انٹیلی جنس اہلکار نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے امریکا کو مطلع کیا تھا کہ ایرانی پاسداران انقلاب کے افسر کرنل حسن صیاد خدائی کو قتل کرنے کے پیچھے تل ابیب کا ہاتھ ہے۔
