تہران:(اے یو ایس ) ایران میں 16 ستمبر کو22 سالہ لڑکی مہسا امینی کی مذہبی پولیس ’گشت ارشاد‘ کی حراست میں مبینہ تشدد سے ہلاکت کے واقعہ کے بعد حکومت کے خلاف احتجا ج کا سلسلہ چوتھے ہفتے میں داخل ہورہا ہے۔دوسری طرف سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ایرانی پولیس اسکول کے بچوں کو بغیرنمبرپلیٹ کے ٹرکوں میں ڈال کرانہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر رہی ہے۔یونیورسٹیوں کے طلبا کی گرفتاریوں کی مہم کے بعد اب مڈل اور اور ہائی اسکولوں کے طلبا کی گرفتاریوں کی بھی اطلاعات ہیں۔اسلامی جمہوریہ ایران کی سکیورٹی فورسز نے طلبا اور اسکولوں پر حملہ کیا۔ ملک بھر کے کئی سکولوں میں ایسا ہی ہوا ہے جن کی ویڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں۔کارکنوں کے ساتھ ساتھ معروف تصویر 1500 ویب سائٹ کے مطابق گذشتہ گھنٹوں کے دوران سکیورٹی فورسز نے اسکول کی عمارتوں کے اندر سے طلبا کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ ان طلبا کو بغیر لائسنس پلیٹوں کے ٹرکوں پر لے جایا گیا۔
حکام نے صوبہ کردستان کے تمام اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو بھی بند کر دیا۔ صوبہ کردستان اس وقت احتجاج کی لپیٹ میں ہے اور ایران میں احتجاج کے اعتبار سے ایک’ٹائم بم‘ بن چکا ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکومت اب بھی اپوزیشن کی اس لہر کے بارے میں فکر مند ہے جو مہسا امینی کی ہلاکت کے کئی ہفتوں بعد بھی جاری ہے۔کرد اکثریتی شہرسقزمیں 17ستمبر کو22 سالہ مہسا امینی کے جنازے کے موقع پر شروع ہونے والے مظاہرے ایران کے مذہبی رہنماو¿ں کے لیے برسوں میں سب سے بڑا چیلنج بن گئے ہیں اور مظاہرین نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ناروے سے تعلق رکھنے والی غیرسرکاری تنظہم ایران ہیومن رائٹس نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ سیستان ،بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ان کی تعداد ریکارڈ کی گئی کل ہلاکتوں کا نصف ہے۔ایرانی سکیورٹی فورسز مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ بھی کررہی ہیں لیکن ایرانی حکام نے ان مظاہروں کو امریکاسمیت ایران کے دشمنوں کی سازش قرار دیتے ہوئے مسلح مخالفین پر تشدد کا الزام عاید کیا ہے اور تشدد کے واقعات میں سکیورٹی فورسز کے کم سے کم 20 ارکان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اتوار کوعلی الصباح ایران کے درجنوں شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں ہائی اسکول کی سیکڑوں طالبات اور جامعات کی طالبات احتجاجی مظاہروں میں شرکت کررہی ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز ان کے خلاف اشک آورگیس، ڈنڈوں کا استعمال کررہی ہیں اور بعض علاقوں میں براہ راست فائرنگ کررہی ہیں۔سماجی کارکن تصویر1500 کی جانب سے ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک شخص چیخ رہا ہے کہ ’میری بیوی کو مت مارو‘ وہ حاملہ ہے ۔ دیگر ویڈیوز میں مظاہرین کو تہران کے جنوبی حصے میں بعض سڑکوں کو بلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹوں میں کہا گیا ہے کہ کارکنوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ہڑتال کی اپیل کے بعد کئی شہروں میں دکانیں بند کردی گئیں۔حکام نے انٹرنیٹ پر جزوی پابندی عائد کررکھی ہے جس کی وجہ سے پ±رتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کی تفصیل آہستہ آہستہ سامنے آرہی ہے۔
