تہران: 22سالہ مہسا امینی کی پولس حراست میں موت پر گذشتہ دو ہفتوں سے جاری احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لیے کئی شہروں کی یونیورسٹیوں میں سلامتی دستے تعینات کر دیے گئے۔ مہسا امینی کی موت سے ملک گیر پیمانے پر پھیلی بے چینی اور افرا تفری نے برسوں میں پہلی بار ایران کے مذہبی رہنماو¿ں کو زبردست مشکلات سے دوچار کر دیا کیونکہ 1979 میں قائم اسلامی جمہوریہ کے زوال کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسکولی طالبات بھی کھل کر سامنے آگئی ہیں اور انہوںنے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای مردہ باد نعروںکے ساتھ جلوس نکالنا شروع کر دیے۔
شمال مغربی شہر سنندج میں حجاب کے بغیر ہائی اسکول کی طالبات نے ’آزادی، آزادی، آزادی‘ کے نعروں کی گونج میں جلوس نکالا ۔یہ مظاہرے ایک 22 سالہ کرد لڑکی مہسا امینی کی، خواتین کو حجاب اوڑھنے اور اسکارف سے اپنے بال ڈھکنے کا پابند بنانے والے قانون کے تحت 13 ستمبر کو تہران میں اخلاقی پولیس کی طرف سے حراست میں لیے جانے کے تین دن بعد موت ہوجانے کے بعد شروع ہوئے تھے جو بڑھتے بڑھتے ملک گیر پیمانے پر شروع ہو گئے اور معاشرے کے مختلف طبقات کے افراد مظاہروں میں شامل ہو گئے۔ رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے بعد ایران کے وزیر تعلیم نے بھی اپنے ازلی دشمن امریکہ اور اسرائیل پر الزام لگایا کہ اب انہوں نے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا کو مظاہروں اور تشدد پر اکسانا شروع کر دیا ہے۔
