تہران: (اے یوایس )تہران میں پیر کی شام پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے عوامی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین ایران اور چین کے درمیان حال ہی میں دستخط کیے جانے والے سمجھوتے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ سمجھوتے میں خفیہ شقیں بھی شامل ہیں۔سوشل میڈیا پر زیر گردش وڈیو کلپوں میں درجنوں شہریوں کو یہ مطالبہ کرتے دیکھا گیا کہ مذکورہ معاہدے کے مندرجات کو منظر عام پر لایا جائے۔ مظاہرین “ایران برائے فروخت نہیں ہے” کے نعرے لگا رہے تھے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر دعوت دی گئی تھی کہ اس سمجھوتے کے خلاف ایران کے مختلف صوبوں میں احتجاج کیا جائے۔ تہران کے مظاہرے کو عوامی تحریک کا نقطہ آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ ہفتے کے روز تہران میں ایران اور چین کے درمیان “25 سالہ معاہدے” کے نام سے تعاون کی ایک دستاویز پر دستخط ہوئے تھے۔ دستاویز پر ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور ان کے چینی ہم منصب وانگ یی نے دستخط کیے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے اتوار کے روز ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ایران اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کے حوالے سے انہیں کئی برس سے تشویش تھی۔امریکی صدر کے موقف کا جواب ایرانی قومی سلامتی کی سپریم کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے پیر کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں دیا۔
شمخانی کا کہنا تھا کہ “ایران اور چین کے درمیان تزویراتی شراکت داری کے سبب بائیڈن کی تشویش بجا ہے کیوں کہ یہ سرگرم مزاحمتی پالیسی کا حصہ ہے”۔مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اور چین کے درمیان حالیہ سمجھوتا ،،، مینڈیٹ یا جدید سامراج کی پالیسی سے ملتا جلتا ہے بالخصوص جب کہ اس میں ایسے امور بھی ہیں جن سے ایران کی قومی خود مختاری کو ضرر پہنچے گا۔سمجھوتے کے مطابق چین کو ایران میں تیل اور گیس کی صنعتوں میں کھلا ہاتھ حاصل ہو گا۔ چین کو خصوصی رعائت کے ساتھ ایرانی تیل خریدنے کا بھی حق ہو گا۔ چین کو اجازت ہو گی کہ وہ خریداری کے دو سال بعد بھی ادائیگی کر سکتا ہے۔اسی طرح چین ایران میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں 128 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
