بغداد:(اے یو ایس )عراق کے سرکردہ شیعہ عالم مقتدیٰ الصدرکے سیکڑوں پیروکاروں نے اتوار کے روز سے ملک کی پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دھرنا جاری رکھا ہوا ہے۔وہ خیمے لگا کر احتجاج کررہے ہیں۔مقتدیٰ الصدر کے حامیوں نے سکیورٹی فورسز کی جانب سے اشک آور گیس،پانی توپ کے استعمال اور 47 ڈگری سینٹی گریڈ (116 ڈگری فارن ہائیٹ) درجہ حرارت کے باوجود احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔انھوں نے ہفتے کے روزبغداد کے قلعہ نما گرین زون کی طرف جانے والی سڑکوں پر رکھی بھاری کنکریٹ کی رکاوٹیں ہٹا دی تھیں اور کمپلیکس پردھاوا بول دیا تھا۔
غیرملکی سفارت خانے ،عراقی پارلیمان اور سرکاری عمارتیں اسی محفوظ سمجھے جانے والے سکیورٹی زون میں واقع ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مقتدیٰ الصدرسڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کو اس بات کا اشارہ دینے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ حکومت سازی میں ان کی رائے کو مدنظررکھا جانا چاہیے۔ان کے حامیوں کے پارلیمان پر دھاوے کا فوری محرک ان کے حریف ایران نواز شیعہ بلاک کی جانب سے محمد شاع السودانی کی وزیراعظم کے عہدے پرنامزدگی ہے۔السودانی کا انتخاب ایک سیاسی اتحاد ’ریاستی قانون کے رہنما اورسابق وزیراعظم نوری المالکی نے کیا ہے۔لیکن ان کی پارلیمان سے بطور وزیراعظم منظوری سے قبل سیاسی جماعتوں کوعراق کے نئے صدر کے انتخاب پر متفق ہونا ہوگا اور پارلیمان پہلے صدر اور نائب صدور کا انتخاب کرے گی۔ان کی نامزدگی کے خلاف مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ ہم بہترین کی امید کررہے تھے لیکن ہمیں بدترین ملا۔اس وقت پارلیمنٹ میں موجود سیاست دان ہمارے لیے کچھ نہیں لائے ہیں ۔رضاکاروں نے ماہ محرم کے آغاز کی مناسبت سے مظاہرین میں سوپ، سخت ابلے ہوئے انڈے، روٹی اور پانی تقسیم کیا۔مظاہرین میں سے بعض نے رات پارلیمان کی ایئرکنڈیشنڈ عمارت کے اندر گزاری تھی اور سنگ مرمر کے فرش پر صبح کے وقت کمبل پھیلے ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ یہ عمارت سابق مطلق العنان صدرصدام حسین کے دورمیں تعمیر کی گئی تھی۔بہت سے مظاہرین نے اس کے نزدیک واقع باغات میں کھجور کے درختوں کے نیچے پلاسٹک کی چٹائیوں پررات گزاری ہے۔یادرہے کہ مقتدیٰ الصدرکا بلاک اکتوبر میں منعقدہ انتخابات میں سب سے بڑے پارلیمانی دھڑے کے طور پرابھرا تھا لیکن اس کے باوجود حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے یا دوسرے بلاکوں کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔جون میں ان کے 73 قانون سازوں نے مذاکرات میں ناکامی کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کی کوششیں ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس کی وجہ سے ایران نواز بلاک پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ اکثریت کا حامل بن گیا لیکن اس کے باوجود نئے وزیر اعظم، صدر یا کابینہ کے نام پر کوئی اتفاق نہیں ہوا ہے۔بغداد میں نئے مظاہرے عدم استحکام کا شکار ملک کے لیے تازہ ترین چیلنج ہیں۔وہ کئی دہائیوں کی جنگ کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش کررہا ہے اور اب اسے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا بھی سامنا ہے۔عراق تیل کی دولت سے مالا مال ہے اوراب عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود وہ بدعنوانی، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے دوچار ہے۔ان لاینحل مسائل ہی نے 2019 میں نوجوانوں کی قیادت میں اشرافیہ مخالف احتجاجی تحریک کو جنم دیا تھا ملک میں کئی ہفتوں تک احتجاجی مظاہرے جاری رہے تھے۔
