بغداد: (اے یو ایس )عراقی عراقی وزارت خارجہ نے عراق کے شمالی صوبہ دوہوک کے ایک تفریحی مقام پر ترک بمباری میں8سیاحوں کی ہلاکت کے خلاف حتجاج درج کرانے کے لیے ترک سفیرمتعین عراق علی رضا گونی کو طلب کر کے نہایت سخت الفاظ میں انہیں احتجاجی مکتوب تھمایا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے ترکی عراقی علاقہ سے اپنی فوجیں فوری طور پر واپس بلا لے۔
قبل ازیں عراق کے دارالحکومت بغداد میں سینکڑوں مظاہرین نے ترکی کے سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا ہے۔ یہ احتجاج بغداد میں سفارت خانے کے سامنے اس وقت کیا گیا جب ترکی کے توپ خانے نے گولہ باری کر کے شمالی عراق میں کم از کم آٹھ سیاحوں کو ہلاک کر دیا۔ گولہ باری کی زد میں آکر مرنے والے ان سیاحوں میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔عراقی کردش حکومت کے اہلکاروں، ہسپتال زرائع اور فوج کے مطابق کہ شمالی عراق کے سیاحتی علاقے میں ترکی کی اس گولہ باری کے نتیجے میں 20 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کا بتایا گیا ہے۔
زاخو کے ضلعی مئیر مشیر محمد نے بتایا ہے کہ اس وقعے میں کم ازکم توپ خانے سے پھینکے گئے چار گولے زاخو ڈسٹرکٹ میں باراخ کے علاقے میں گرے ہیں۔ گولہ باری سے مرنے والے تمام افراد کا تعلق عراق سے ہے۔بدھ کے روز عراقی مظاہرین نے ترکی کے سفارتخانے کے باہر احتجاجی مظاہرے کے دوران مذمتی نعرے لگائے۔ احتجاجی مظاہرین میں سے محمد علی نامی ایک نے کہا ‘ جس جگہ گولہ باری کی گئی وہ ایک سویلین علاقہ ہے، جس سے خواتین، نوجوان مردوں کے علاوہ بچوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ایک سویلین اور سیاحتی علاقے کو کیوں ٹارگیٹ کیا گیا۔
‘واضح رہے سینکڑوں شہری سخت گرمی کے دنوں میں اپنی چھٹیاں اس نسبتًا ٹھنڈے علاقے میں گذارنا پسند کرتے ہیں۔جبکہ ترکی باقاعدگی سے اس علاقے کو اپنی گولہ باری کا نشانہ بناتا ہے۔ اس علاقے میں اس کے کمانڈوز بھی اس کی جارحانہ کارروائیوں کے سلسلے میں بھیجے گئے ہیں۔ جن کا ہدف کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کے لوگ ہیں۔وزارت خارجہ ترکی نے عراقی حکومت کے ساتھ ان مرنے والے سیاحوں کے سلسلے میں تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لے دعاوں پر مبنی ایک بیان جاری کیا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ترکی ان آپریشنز کے دوران سویلینز اکی حفاظت کے ساتھ انفراسٹرکچر، تاریخی و ثقافتی کی جگہوں اور درختوں کے لیے غیر معمولی حساسیت رکھتا ہے۔ ترکی اس سلسلے میں حقائق سامنے لانے کے لیے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔