بغداد:() عراق کی عدالتِ عظمیٰ نے ایران کے حمایت یافتہ شیعہ دھڑوں کی جانب سے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے خلاف دائراپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے انتخابی نتائج کی توثیق کردی ہے۔ایران کے حمایت یافتہ دھڑوں بہ شمول طاقتور مسلح گروہوں نے 10 اکتوبر کو منعقدہ پولنگ میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کا الزام لگایا تھا۔دو ماہ سےزیادہ عرصے کی تاخیر کے بعد انتخابی نتائج کی توثیق سے عراقی قانون کے تحت اب دو ہفتوں کے اندر نئی پارلیمان کا افتتاحی اجلاس منعقد کرنے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔عدالتِ عظمیٰ کے میڈیا افسر نے سوموارکو ایک مختصر بیان میں اعلان کیا کہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کی توثیق کر دی گئی ہے اورعدالت نے ملیشیاؤں پر مشتمل اتحاد پاپولرموبلائزیشن یونٹ (الحشد الشعبی) کی جانب سے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کے خلاف دائرکردہ درخواست مسترد کردی ہے۔
چیف جج جاسم محمد عبود نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ”وفاقی عدالت نے شکایت مسترد کرنے کا حکم صادر کیا ہے اور مدعیوں کو تمام اخراجات برداشت کرنے کا کہاہے۔ اس حتمی فیصلہ کی تعمیل تمام حکام پرلازم ہے“۔انھوں نے مزید کہا کہ ”انتخابی نتائج پراعتراضات، چاہے ان کی بنیاد کچھ بھی ہوں،ووٹ کی قدرکو کمزورکررہے ہیں، رائے دہندگان کا اعتماد کمزورکررہے ہیں اور سیاسی عمل کو پٹڑی سے اتاررہے ہیں“۔واضح رہے کہ شعلہ بیان شیعہ عالم دین مقتدیٰ الصدر کو 30نومبرکو انتخابات کابڑا فاتح قرار دیا گیا تھا۔صدری تحریک نے عراق کی قومی اسمبلی کی کل 329 میں سے 73 نشستیں حاصل کی ہیں۔ایران نوازالحشد الشعبی کے سیاسی بازوالفتح (فتح) اتحاد نے صرف 17 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔اس کے رہ نماو¿ں نے انتخابی نتیجے کومسترد کردیا تھا-فتح اتحاد کی سبکدوش ہونے والی اسمبلی میں 48 نشستیں تھیں-الحشد لشعبی نے انتخابی نتائج کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا تھااور انھیں کالعدم قرار دینے کی امید میں عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی۔اس نے انتخابی عمل میں ”سنگین خلاف ورزیوں“کا دعویٰ کیا تھا۔
الفتح نے الزام عایدکیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام بہت سے رائے دہندگان کی انگلیوں کے پرنٹ کی شناخت کو تسلیم کرنے میں ناکام رہا تھا۔اس نے اس بات پر بھی احتجاج کیا کہ انتخابات کے لیے استعمال ہونے والی ایک نئی الیکٹرانک مشین مبیّنہ طورپرٹھیک طرح سے کام نہیں کررہی تھی۔واضح رہے کہ 2003 میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی فوج نے عراق پرچڑھائی کے بعد سابق مطلق العنان صدر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا تھا اورایک نئے سیاسی بندوبست کا اہتمام ونفاذ کیا تھا۔اس کے بعد سے شیعہ گروپ ہی عراق کی سیاست میں چھائے ہوئے ہیں اوروہی حکومتوں کی تشکیل کے لیے جوڑ توڑ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔اب آیندہ دنوں میں نومنتخب پارلیمان کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوگا۔اس میں قانون ساز ملک کے نئے صدر کا انتخاب کریں گے اوروہ پھر نیا وزیراعظم نامزد کرکے اس کوکابینہ بنانے کی دعوت دیں گے۔واضح رہے کہ عراقی آئین کے تحت ملک کا صدر کرد، وزیراعظم شیعہ اور پارلیمان کا اسپیکرسنی ہوتا ہے۔
