کراچی:(اے یو ایس)عالمی شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) کی پاکستانی شاخ نے حال ہی میں اردو زبان میں ایک میگزین جاری کیا ہے جسے شدت پسند گروہ کا مقامی سطح پر پہلا مقامی اردو مطبوعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ماہِ مئی کے اوائل میں داعش پاکستان کے پروپیگنڈہ مواد کو پھیلانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ‘یلغار’ نامی اردو میگزین کو پی ڈی ایف فارمیٹ کی صورت میں تقسیم کیا گیا۔سیکیورٹی امور کے ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے افسران ایک جانب داعش پاکستان کے اردو زبان میں مجلے کے اجرا کے عمل کو شدت پسند گروہ کا خطے میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کی کوششوں کی ایک کڑی قراد دے رہے ہیں۔دوسری جانب ماہرین کا خیال ہے کہ داعش سمیت دیگر شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں بھرتیوں اور اپنے ایجنڈے کی تشہیر کے لیے جدید ترین ڈیجیٹل اور انٹرنیٹ کی حکمتِ عملی کو استعمال کر رہے ہیں۔ایک انفوگرافک پاکستان اور بھارت میں داعش کے حالیہ حملوں کے بارے میں ہے اور دوسرا انفوگرافک داعش کے پروپیگنڈہ ویڈیو سیریز کو فروغ دینے کے حوالے سے ہے۔میگزین کے آخری صفحے پر قارئین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اپنی تجاویز اور مضامین ایک ای میل کے ذریعے بھیجنے کا کہا گیا ہے۔ ‘یلغار’ میگزین کا تفصیلی جائزہ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے پہلے شمارے میں پاکستان میں داعش کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی دلچسپ مواد موجود نہیں اور زیادہ تر مواد اس سے قبل داعش کے دیگر پلیٹ فارمز پر شائع ہونے والے مواد کا اردو ترجمہ ہے۔
شدت پسند تنظیموں کے پروپیگنڈہ اور مطبوعات پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم تجزیہ کار عبدالسعید نے کہا کہ داعش خراساں کی مطبوعات اور مواد کے مقابلے میں داعش پاکستان کے پروپگنڈہ کے مواد اتنے اصلی یا دلکش نہیں۔وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “داعش کے میگزین میں داعش پاکستان سے متعلق دو مضامین پرانے مواد کی نقل ہیں جن میں ایک داعش خراساں کے بانی امیر حافظ سعید خان اورکزئی کا داعش کے انگریزی مجلے دبیق کے 2016 میں شائع انٹرویو ہے جس میں وہ خطے میں تنظیم کے اراکین اور حامیوں کو نصیحتیں کر رہے ہیں۔”ان کے بقول، دوسرا مضمون رواں برس جنوری میں داعش کی ’ندائے حق اردو’ نامی میڈیا سینٹر کے ذریعے جاری کردہ ایک دستاویزی فلم سے داعش پاکستان کے ایک کمانڈر کے اردو زبان کے بیان کی نقل ہے۔یہ دستاویزی فلم دو جنوری کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے قصبے میں شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے قتل کے حوالے سے تھی جس کی ذمہ داری داعش پاکستان نے قبول کی تھی۔عبدالسعید کا کہنا ہے کہ اس میگزین میں پاکستان میں داعش کے حوالے سے اہم معلومات صرف پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں افغان طالبان کے سینئر کمانڈر نیک محمد رہبر کی ہلاکت تھی۔خیال رہے کہ نیک محمد رہبر نے افغانستان کے صوبے ننگرہار سے داعش خراسان کو صاف کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔داعش خراسان اور داعش پاکستان کے دیگر پروپیگنڈہ مواد کی طرح اس میگزین میں بھی متعدد مواقع پر خطے میں داعش کے بڑے عالمی جہادی حریف القاعدہ اور علاقائی جہادی حریف افغان طالبان پر تنقید کی گئی ہے۔میگزین میں شائع ایک مضمون میں شام میں داعش کی علاقائی خلافت کے خاتمے کے بعد شدت پسند گروہ کی خواتین اراکین کی گرفتاریوں اور مشکلات پر القاعدہ کی خاموشی پر تنقید شامل ہے۔
میگزین میں افغان طالبان کے اراکین پر پاکستانی حکومت، خصوصاً ملک کے خفیہ جاسوسی اداروں کے کٹھ پتلی ہونے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔داعش کی مرکزی قیادت نے سنہ 2019 میں پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کی علاقائی شاخ خراسان سے پاکستان اور بھارت کو الگ کرتے ہوئے یہاں کے لیے ‘دولت اسلامیہ ولایہ پاکستان’ اور ‘دولتِ اسلامیہ ولایہ ہند’ کے نام سے اپنی الگ شاخوں کا اعلان کیا جو کہ ‘داعش پاکستان’ اور ‘داعش بھارت’ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔محقق عبدالسعید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں داعش کے حملے زیادہ تر صوبہ بلوچستان میں افغان طالبان اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے شیعہ کمیونٹی کے خلاف رہے ہیں جب کہ نئے قائم ہونے والے قبائلی ضلع باجوڑ میں بھی داعش اکثر چھوٹے ہدف کے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ان کے بقول، “2014 کے اواخر میں داعش کو پاکستان کے شہری علاقوں خصوصاً پشاور، لاہور اور کراچی میں پذیرائی ملی تھی مگر داعش کے پاکستان میں حملوں کے سلسلے اور اس کے تبلیغی مواد کا جائزہ بتاتا ہے کہ داعش اب تک پاکستان میں اپنے قدم مضبوطی سے جما نہیں سکی۔”پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی ’ملیٹنٹس میڈیا ان پاکستان‘ کے نام سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق ان شدت پسند تنظیموں کو نہ نجی شعبے میں قائم الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اعتبار تھا اور نہ ہی سرکاری میڈیا پر۔ اسی وجہ سے یہ تنظیمیں اپنا متوازی میڈیا تشکیل دینے کے لیے ایک عرصے سے سرگرم ہیں۔شدت پسندوں کے جہادی جریدوں پر تحقیق کرنے والے پشاور میں مقیم محقق افضل خان نے بتایا کہ ماضی میں پاکستان کی شدت پسند تنظیمیں اپنا پروپیگنڈہ مواد تقسیم کرنے کے لیے پرنٹڈ مجلوں اور جرائد کا استعمال کرتی تھیں لیکن ‘نیشنل ایکشن پلان’ کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیموں کے مطبوعات کی اشاعت پر پاپندی کے بعد ان تنظیموں کے لیے جرائد اور رسالے شائع کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں داعش کی مرکزی تنظیم دابق مجلہ اور البیان اخبار نکال کر سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے شیئر کرتی تھی جب کہ عماق، الفرقان فاؤنڈیشن، العقاب آن لائن فورم اور الفتنہ فورم سے بھی اپنے پروپیگنڈہ مواد کو پھیلاتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش پاکستان نے ‘یلغار’ نامی اردو مجلہ دراصل اپنے علاقائی حریف القاعدہ برصغیر کے اردو میں کئی سالوں سے نکلنے والے مجلے ‘نوائے افغان جہاد’ کے مقابلے میں جاری کیا ہے جس کا نام مارچ 2020 میں القاعدہ برصغیر نے تبدیل کر کے ’نوائے غزوہ ہند‘ رکھنے کا اعلان کیا تھا۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ‘عمر میڈیا’ کے نام سے مختلف سوشل میڈیا نیٹ ورکس خصوصاً ٹیلی گرام کے ذریعے اپنے بیانات کے ساتھ ساتھ مجلے بھی تقسیم کرتے رہتے ہیں۔حالیہ چند برسوں میں ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نور ولی کی جانب سے ‘انقلاب محسود’ نامی کتابچے کے تین ایڈیشز جاری کیے گئے ہیں جو بڑے پیمانے پر پی ڈی ایف فارمیٹ میں تقسیم کیے گئے۔خیال رہے کہ ٹی ٹی پی نے چند برس قبل خواتین کے لیے ‘سنت الخولہ’ کے نام سے ایک مجلے کا اجرا کیا تھا جس کا بنیادی مقصد خواتین کو شدت پسند گروہ میں بھرتی کرنے کے لیے قائل کرنا تھا۔سیکیورٹی ماہرین اور قانون نافذ کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ دنیا بھر کی شدت پسند تنظیموں کی طرح پاکستان میں فعال شدت پسند تنظیمیں انٹرنیٹ کو بطور میدانِ جنگ استعمال کرنے کے لیے مو¿ثر حکمتِ عملی سے کام لے رہی ہیں؛ اور بعض شدت پسند تنظیموں نے اپنے ایجنڈے کی تشہیر، نیٹ ورکنگ و رابطہ اور ٹریننگ مینوئل کو عام کرنے کے لیے اپنی اپنی ویب سائٹس ترتیب دے دی ہیں۔محقق افضل خان کے بقول، اب شدت پسند تنظیمیں ویب سائٹس اور سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے اپنی تنظیموں کی تمام تازہ ترین ویڈیوز، رسائل، اعلانات، مرکزی ترجمان کے بیانات اور نظمیں شیئر کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مقامی اور عالمی شدت پسندوں کے درمیان رابطے اور نئی بھرتیوں کے لیے بھی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے لیے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف اقدامات اس نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے ایک نکتہ ہے جسے حکومتِ پاکستان کی جانب سے دسمبر 2014 میں پشاور میں ٹی ٹی پی کی جانب سے اسکول کے 100 سے زائد بچوں کو ہلاک کرنے کے بعد انسدادِ دہشت گردی کی ایک جامع حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا تھا۔قانون نافذ کرنے والے افسران کا کہنا ہے کہ کالعدم شدت پسند اور جہادی تنظیموں کے لٹریچر پر پابندی لگا کر اس پر قابو پایا لیا گیا ہے مگر انٹرنیٹ پر موجود ان تنظیموں کی ویب سائٹس اور نفرت انگیز مواد کی روک تھام کے لیے موثر اور جامع کارروائی مشکل عمل ہے۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کی ایک انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے جون 2020 میں القاعدہ برصغیر سے وابستہ پانچ اراکین کو تنظیم کے لٹریچر کو سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے پھیلانے سمیت دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں ملوث ہونے کی بنیاد پر جرمانے سمیت 16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔القاعدہ برصغیر کے یہ اراکین کراچی میں تنظیم کے ڈیجیٹل سیٹ اپ چلا رہے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں کے باعث گوجرانوالہ منتقل ہو گئے تھے۔ پنجاب پولیس کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے انہیں دسمبر 2019 میں گرفتار کر کے ان کے قبضے سے دو لیپ ٹاپ بر آمد کیے تھے جس میں خفیہ مواد کے ساتھ ساتھ پرنٹ شدہ لٹریچر بھی برآمد کیا تھا۔پاکستان سائبر کرائمز بل 2016 کے اعلان کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سوشل میڈیا پر مذہبی جنونیت بڑھانے، مذہبی و فرقہ ورانہ نفرت کو بھڑکانے اور انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پر اکسانے والے تمام اقسام کا مواد بلاک کرنا شروع کر دیا ہے۔
پی ٹی اے میں شدت پسند تنظیموں کی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے شعبے سے وابستہ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی اے نے ایک خصوصی سیل قائم کیا ہے جو کالعدم شدت پسندوں اور دیگر افراد کی جانب سے پاکستان میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے نفرت انگیز مواد کے بارے میں شکایات پر فوری کارروائی کرتا ہے۔ان کے بقول پی ٹی اے کا خصوصی سیل کالعدم تنظیموں کی ویب سائٹس اور یو آر ایل (یونیفارم ریسورس لوکیٹر) کو بلاک کرنے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ داعش اور دیگر عالمی و مقامی شدت پسند تنظیمیں اپنے پراپیگنڈہ مواد شائع کرنے کی غرض سے چلائے جانے والے آو¿ٹلیٹس کی مسلسل آئی پی ایڈریس تبدیل کرتے رہتے ہیں تاکہ بند یا بلاک کیے جانے سے بچے رہیں۔ان کے بقول، بین الاقوامی کریک ڈاو¿ن کی وجہ سے شدت پسند تنظیموں کے لیے ویب سائٹس چلانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جو کوئی بھی سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد یا انتہاپسندوں کا پراپیگنڈہ دیکھے تو اس کی اطلاع فوری کارروائی کے لیے پی ٹی اے کو دے سکتا ہے۔