سہیل انجم
جب بھی جموں و کشمیر میں قیام امن کی کوشش کی جاتی ہے یا حالات کو بہتر بنانے کا کوئی راستہ ڈھونڈا جاتا ہے تو دہشت گرد گروپ سرگرم ہو جاتے ہیں اور وہ ایسی وارادتیں انجام دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں جن سے ان کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے۔ ہمیشہ اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور اب بھی غالباً کچھ ایسی ہی کوشش کی جا رہی ہے۔ 26 اور 27 جون کی درمیانی شب میں جموں ائیر فورس اسٹیشن پر چھ منٹ کے وقفے کے ساتھ یکے بعد دیگرے ہونے والے دو دھماکوں نے اس شبہ کو تقویت فراہم کر دی ہے۔ اگر چہ یہ کوئی بڑی واردات نہیں تھی اور اس میں چند افراد زخمی ہوئے کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی تاہم یہ وارات اس لیے باعث تشویش ہے کہ پہلی بار ایسے حملوں کے لیے ڈرون کا استعمال کیا گیا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ایئر فورس اسٹیشن کے تکنیکی ایریا میں ڈرون کے ذریعے اوپر سے دھماکہ خیز مادے گرائے گئے جس کی وجہ سے اسٹیشن کی چھت میں شگاف ہو گیا۔ البتہ کسی چیز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل دہشت گرد گروپوں کی جانب سے ڈرون سے اسلحہ اور رسد وغیرہ لے جانے کی خبریں ملتی رہی ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ڈرون سے حملہ کیا گیا ہے۔
اس لیے اس اندیشے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ اب دہشت گرد گروپوں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور اب انھوں نے ڈرون کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اس لیے بھی باعث تشویش ہے کہ ایک تو ڈرون کو راڈار کے ذریعے پکڑا نہیں جا سکتا۔ وہ بہت نیچی پرواز کرتا ہے جس کی وجہ سے راڈار کے آئینے میں نہیں آتا۔ دوسری بات یہ کہ اس میں دہشت گردوں کا جانی نقصان نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی دہشت گرد خود کش حملہ کرتا ہے تو وہ بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور اگر حملے کا منصوبہ بناتے وقت انٹلی جنس ایجنسیوں کو خبر ہو جائے تو اس منصوبے کو ناکام بنانے کے اقدامات کیے جاتے ہیں اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں دہشت گرد مارے جاتے ہیں۔ لیکن ڈرون حملے میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے ایک اینٹی ڈرون حکمت عملی بنانی پڑے گی تاکہ کسی بھی ڈرون حملے کا پہلے سے اندازہ ہو جائے اور اسے ناکام بنایا جا سکے۔ بہرحال این آئی اے نے اس واقعہ کی جانچ شروع کر دی ہے۔ یہ حملہ اس لیے بھی تشویش کا سبب ہے کہ جائے واردات پاکستانی سرحد سے محض 14 کلومیٹر دور ہے۔ اس سے شک کی سوئی پاکستان سے سرگرم دہشت گرد گروپوں کی جانب گھومتی ہے اور ایسا سمجھ میں آتا ہے کہ سرحد پار سے سرگرم دہشت گردوں کا اس وارات میں ہاتھ ہو سکتا ہے۔ بہرحال جو بھی ہو این آئی اور یگر ایجنسیوں اور پولیس محکمہ نے بھی جانچ شروع کر دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جانچ کا کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے اور کیا واقعی یہ واردات سرحد پار کے دہشت گردوں نے انجام دی ہے یا پھر کشمیر سے سرگرم جنگجووں نے۔
اسی درمیان دہشت گردوں نے پلوامہ میں ایک اسپیشل پولیس آفیسر (ایس پی او) کے گھر پر رات میں حملہ کر دیا جس کے دوران ایس پی او فیاض احمد کی موقع پر ہی موت ہو گئی جبکہ ان کی اہلیہ راجہ بیگم اور بیٹی رفیعہ اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسیں۔ مذکورہ ایس پی او کا بیٹا فوج میں ہے۔ جموں و کشمیر کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے اس واردات کی مذمت کی ہے اور اسے دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ خیال رہے کہ جب سے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے جموں و کشمیر کے 14 سیاست دانوں کو بات چیت کے لیے دہلی مدعو کرنے کی خبریں آئی تھیں اسی وقت سے دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔ اس خبر کے منظر عام پر آنے سے لے کر اب تک دہشت گردی کی کم از کم چار وارداتیں انجام دی جا چکی ہیں۔ لہٰذا دفاعی و سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ وزیر اعظم کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔ دہشت گرد نہیں چاہتے کہ جموں و کشمیر میں امن قائم ہو اور وہاں سیاسی و جمہوری عمل کا آغاز ہو۔ کیونکہ ایسا ہونا ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی جب جب کشمیر میں بحالی اعتماد کے اقدامات کیے گئے ہیں یا سیاسی صورت حال کی بحالی کی کوشش کی گئی ہے ایسی وارادتیں ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے قیام امن کی وکالت کی گئی یا اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے اختلافات کو ختم کرنا چاہیے، ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ اگر ہم تاریخ میں جائیں تو پائیں گے کہ جب سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی بس لے کر لاہور گئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی تلخی ختم ہونے اور دونوں میں دوستی کا نیا دور شروع ہونے والا ہے تو کرگل پر چڑھائی کر دی گئی تھی۔ اسی طرح جب وزیر اعظم نریندر مودی افغانستان کے دورے سے واپسی پر اچانک پاکستان میںاتر گئے تھے اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف سے انھوں نے ملاقات کی تھی تو اس کے چند دنوں کے بعد دہشت گردوں نے پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کر دیا تھا۔ اس طرح اگر ہم دیکھیں تو پائیں گے کہ جب جب امن مساعی کی کوشش کی گئی ہے اس کو ناکام بنانے کے لیے خوفناک وارداتیں انجام دی گئی ہیں۔
جموں و کشمیر کو خصوصی اختیارات تفویض کرنے والی دفعہ 370 کی منسوخی کے تقریباً دو سال بعد جب وزیر اعظم مودی نے جموں و کشمیر کے سیاست دانوں کو دہلی بلا کر میٹنگ کی اور اس میٹنگ کا خوشگوار نتیجہ برآمد ہوا تو ایک بار پھر ددہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ اس ملاقات کے بعد کشمیری رہنماوں کی جانب سے جو بیانات آئے وہ بہت ہی مثبت تھے۔ البتہ جمہوری وسیاسی عمل کی بحالی کے لیے حکومت نے جو ٹائم لائن بنائی ہے اس پر کشمیری رہنماوں کے کچھ تحفظات ہیں۔ لیکن تقریباً تمام لیڈروں نے بہت مثبت بیانات دیے ہیں۔ اگر چہ عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی نے دفعہ 370 کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے یا اس کی واپسی کے لیے قانونی لڑائی لڑنے کا اعلان کیا ہے، تاہم وہ بھی اس کے حق میں ہیں کہ کشمیر میں جاری سیاسی و جمہوری انجماد کو ختم کیا جائے۔ انتخابات ہوں، عوام اپنی پسند کے نمائندے منتخب کریں اور ان کو
پرامن زندگی جینے کے مواقع ملیں۔
حکومت نے بہت ہی فیصلہ کن موڑ پر کشمیری رہنماوں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ قارئین کو معلوم
ہے کہ امریکی افواج افغانستان سے انخلا کر رہی ہیں۔ گیارہ ستمبر تک وہ مکمل طور پر افغانستان سے چلی جائیں گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوگی۔ اب بھی ملک کے نصف سے زائد حصے پر طالبان کا قبضہ ہے۔ لہٰذا ان کی حکومت بننے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میں یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتدار پر طالبان کے قبضے کے بعد جنگجو گروپوں کی سرگرمیاں ایک بار پھر نہ بڑھ جائیں اور پاکستان و افغانستان میں جو دہشت گرد گروپ سرگرم ہوں وہ جموں و کشمیر میں اپنی سرگرمیاں تیز نہ کر دیں۔ حکومت ہند کو بھی اس بات کا احساس ہے۔ اسی لیے اس نے طالبان کے ساتھ رابطہ کاری کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پہلے ہندوستان طالبان سے غیر رسمی بات چیت کر رہا تھا لیکن اب وہ باضابطہ طور پر کر رہا ہے۔ ایسی خبریں آئی ہیں کہ ہندوستان کے ایک وفد نے خاموشی کے ساتھ قطر کا دورہ کیا ہے جہاں اس نے طالبان کی سیاسی قیادت سے بات چیت کی ہے۔ خیال رہے کہ دوحہ میں طالبان کا سیاسی ہیڈ کوارٹر ہے۔ وہیں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے اور دونوں میں معاہدہ ہوا۔ اگر چہ حکومت ہند کی جانب سے اس بات چیت کی نہ تو تصدیق کی گئی ہے اور نہ ہی تردید لیکن باوثوق ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندوستان طالبان سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کا مقصد غالباً طالبان کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ اگر انھوں نے پہلے کی مانند پھر سخت گیر پالیسی اختیار کی تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے اور یہ بات نہ صرف یہ کہ افغانستان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ناخوشگوار ہوگی۔ بہرحال اس اندیشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ طالبان کی آمد کے بعد کشمیر میں حالات بگڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے حکومت نے جہاں طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کی ہے وہیں کشمیری رہنماو¿ں سے بھی مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ یہ ایک خوشگوار صورت حال ہے اور ظاہر ہے یہ بات ان لوگوں سے ہضم نہیں ہو سکتی جو امن کے دشمن ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ کشمیر میں امن مساعی کو نقصان پہنچانے کے لیے دہشت گرد گروپ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہوں۔
sanjumdelhi@gmail.com