Is Pakistan nothing more than a colony of China?تصویر سوشل میڈیا

مائیکل روبن

چین کے مفادات کی خاطر بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کی موقت واقع ہو سکتی ہے اور پاکستانی حکومت ان اموات کی اجازت بھی دے سکتی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستان کے رہنماو¿ں نے کس طرح اپنی وفاداریاں امریکہ سے چین منتقل کر دیں۔
حالیہ برسوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں کمی آئی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان طویل عرصے سے امریکی سرد جنگ کا حلیف تھا لیکن یہ شراکت دونوں ممالک کے لئے آخری ہتھیار تھی۔ صدر ہیری ایس ٹرومین نے ابتدا میں ہندوستان کے ساتھ اتحاد کی کوشش کی تھی۔ ہندوستان نہ صرف ایک جمہوری ملک ہے بلکہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی کا حامل بھی ہے ، اور بحر ہند پر غلبہ حاصل کرنے کی اس کی صلاحیت نے اسے فوجی اعتبار سے نعمت غیر مترقبہ بنا دیاہے۔
ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے ٹرومین کی سرزنش کرتے ہوئے اتحادی بننے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے ناوابستہ راہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔ پاکستان کے پاس امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے سوا کچھ دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ناوابستہ تحریک میں شامل ہونے سے وہ ہندوستان کا ما تحت ہوجاتا ۔ چونکہ ناوابستہ تحریک سوویت اثر و رسوخ کی طرف جھکاو¿ رکھتی تھی ، لہذا پاکستان بھی ماسکو پر اعتماد نہیں کرسکتا تھا کہ وہ ا ہندوستان کی طرح اس کے مفادات کا خیال رکھے گا کیونکہ سوویت یونین ہمیشہ حقیقی سیاسی وجوہات کی بنا پر دہلی کا ساتھ دے گا۔
ابتدا میں ، امریکہ اور پاکستان دونوں اپنے مسائل بالائے طاق رکھنے کو تیار تھے ۔ پاکستان سنٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (سینٹو) یا ”بغداد معاہدہ“ کا ایک چارٹر ممبر بن گیا ، آئزن ہاور دور کا ایک گروپ جس کا مقصد وسطی ایشیا میں اشتمالیت کے فروغ کو روکنا ناٹو کی خدمات انجام دینا تھا۔ تاہم ، باہمی دفاع کے تصور کو اس وقت ایک دھچکا لگا جب ہندوستان اور پاکستان کے مابین پہلے 1965 میں اور پھر 1971 میں جنگ چھڑ گئی۔پاکستان کا اصرار تھا کہ ہندوستان حملہ آور ہے اور امریکہ سے مطالبہ کیا کہ اس کی مدد کرے۔ تاہم ، امریکی حکام نے بڑے اطمینان کے ساتھ پاکستان پر الزام عائد کیا کہ اسی نے تنازعہ کا آغاز کیا ہے اور پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان دونوں جنگیں ہار گیااور امریکہ کے دھوکہ دینے سے امریکہ کے تئیں اس کے دل میں کینہ پنپنا شروع ہو گیا۔پاکستان کانقطہ نظر یہ تھا کہ امریکہ نے اچھے حالات والے دوست کا کردار ادا کیا ہے۔ 1970 کے عشرے سے امریکی کانگریس نے پاکستان کی جوہری سرگرمیوں کے باعث پر اسلحہ کی پابندی اور دیگرپابندیاں کردیں۔ جب بھی امریکہ کو پاکستان سے تعاون کی ضرورت ہوتی تھی امریکی حکومت اپنی ضرورت پوری ہونے تک کے لیے پابندیاں اٹھا لیتی تھی اورضرورت پوری ہونے کے بعد پھر وہی پابندیاں نافذ کر دی جاتی تھیں ۔
بلا شبہ امریکہ کی بھی اپنی پریشانیاں تھیں۔کانگریس نے جائز وجوہات کی بنا پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کی حمایت ناقابل معافی ہے ، اور حالیہ برسوں میں پاکستان کو تقریباً چار ہزار دہشت گردوں کی فہرست سے ، جس میں 2008 کے ممبئی حملوں کے ماسٹر مائنڈز میں سے ایک ذکی الرحمان لکھوی ، اور وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ڈینیل پرل کا قاتل احمد عمر شیخ شامل ،خارج کرنے پر تمام ممالک کو غم و غصہ کرنا چاہئے ۔۔ ایٹمی سائنسداں عبد القدیر خان کی سرگرمیوں کا پاکستان نے کبھی احتسابنہیں کیا ۔ پاکستان نے طالبان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلا اور القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو پناہ دی۔
ایف بی آئی نے غیر قانونی سازو سامان اور ٹیکنا لوجی حاصل کرنے کی پاکستانی کوششوں کو بارہا روکا ۔ مثال کے طور پر ، جنوری 2020 میں ، امریکہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے غیر قانونی طور پر امریکی ٹکنالوجی کے حصول کے لئے پانچ پاکستانی تاجروں کے خلاف محاذی کمپنیوں کا نیٹ ورک چلانے کے باضابطہ الزامات طے کیے۔امریکہ اور پاکستان کے مابین خراب رشتوں کی لمبی تاریخ کے ساتھ پاکستان نے چین کا دامن تھاما تو کسی کو حیرانی نہیں ہوئی۔ ۔ پاکستانی رہنما چین میں اسٹریٹجک گہرائی دیکھتے ہیں ، جو ایک ایسا اتحادی ہے جو لائن آف کنٹرول پر ہندوستانی جوابی کارروائیوں کو روک سکتا ہے ، اور ایسا پارٹنر ہے جو پاکستانی بدعنوانی ، مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اس کے خراب سلوک ، اور اس کے انسانی حقوق کے داخلی ریکارڈ پر تنقید نہیں کرتاہے۔ چین کے لئے پاکستان مغربی ایشیا میں زمینی روابط اور گوادر میں ایک اسٹریٹجک بندرگاہ فراہم کرنے میں ایک بڑی منڈی بن سکتا ہے ۔پاکستانیوں کو جلد ہی احساس ہوجائے گا کہ کاش ان کے ملک نے شیطان کے ساتھ ایسیا سودا نہ کیا ہوتا جیسا کیا گیا ہے ۔ پاکستان نے اپنے آپ کو ایک ایسے ملک سے باندھ رکھا ہے جو صرف اپنے مذہب کی بنیاد پر دس لاکھ مسلمانوں کے حراستی کیمپوں میں قید رکھنےکا ذمہ دار ہے اور اس نے ایک ایسے ملک کے ساتھ شراکت کی ہے جو پاکستانیوں کے قتل اور پاکستان کو ذلیل و رسوا کرنے کے بارے میں کچھ نہیں سوچتی ہے۔اب ، یہ بات بھی تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک)پاکستان اور زیادہ تر بڑے پیمانے پر ، جنوبی ایشیامیں نقل و حملکے لیے ایک اہم شاہراہبن سکتی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ان ہاٹ ا سپاٹ کو جہاں کورونا وائرس پھیل گیا ہے ختم کرنے میں معتدل کامیابی کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان میں راہداری کے کنارے بسنے والے لوگ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ راہداری سے چینی تجارت اور ٹریفک اور اس کی پاکستان کے اشتراک سے پورے خطہ میں تجارتی سرگرمیوں سے کورونا وائرس کی وبا جنگک کی آگ کی طرح پھیلنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے یہ دباو¿ ہی وزیر اعظم عمران خان کو قبل از وقت پاکستان میںلاک ڈاو¿ن ختم کرنے پر مجبورکر رہا ہو۔سی پیک کے پھیلاو¿ کا مکمل خطرہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا ہے۔ سردیوں کے دوران موسم راہداری سے نقل و حمل روک دے گا ۔لیکن جیسے ہی موسم بہار شروع ہو تا ہے عام طورپر تجارت میں تیزی آجاتیہے۔ بہت سے چینی کارکن چینی نئے سال کے لئے وطن واپس جا چکے ہیں جو حسن اتفاق سے موسم سرما کے باعث تعمیرات میں ٹاخیر کے موافق تھے ۔لیکن اب کئی سو چینی کارکن اس منصوبے پر کام کرنے کے لئے پاکستان واپس لوٹ چکے ہیں ، جس سے سی پیک کے مختلف منصوبوں پر چینی کارکنوں کی مجموعی تعداد دس ہزار سے پندرہ ہزار کے درمیان ہو گئی ہے۔ اس بات کا بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ چین نے پاکستان میں اپنے سی پیک کارکنوں کے کورونا وائرس کی جانچ اور قرنطینہ مراکز قائم کیے ہیں۔گلگت بلتستان کوئلے کی کان میں چنگاری ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان کی چینی شراکت کی خاطر مقامی لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ پاکستان کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ اس میں صرف ایک جانچ مرکز ہے اور یہ روزانہ صرف پندرہ افراد کی جانچ کرسکتا ہے۔ اس خطے میں اطلاعات کے مطابق 9 وینٹی لیٹر زہیں جبکہ مقامی ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ انہیں کم از کم 200 کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عہدے دار ان،جنھوں نے طویل عرصے سے اس خطے کو نظرانداز کیا ہے ، اس کے حق خود مختاری کو چھیننے کے لئے بھی کام کر رہے ہیں۔اسلام آباد میں پاکستانی حکام پاکستان کی باٹم لائن کو نقصان نہ پہنچانے اور چین کی توہین نہ ہونے دینے کے لیے چینی یقنی دہانیوں کو تسلیم کر سکتے ہیں قطع نظر اس بات کے کہ یہ چینی جھوٹ اور سب کو تاریکی میں رکھنا ہی تھا جس نے اس وبا کو پوری دنیا میں پھیلا دیا۔
پاکستانی قوم پرستوں کے لئے یہ بڑا آسان رہا ہے کہ وہ امریکہ اور پاکستان کے مابین رشتوں میکں تلخی پیدا کرنے میں اپنے اعمال کی ذمہ داری سے چھٹکارہ پانے کے لیے امریکی مخالف جذبات کا استعمال کریں۔ پاکستان نے جب نئے شراکت داروں کو ڈھونڈنا شروع کیا تو چین نے بھی اسی وقت پاکستان سے پینگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ لیکن وہ دن دور نہیں جب پاکستانیوں کو احساس ہو جائے گا کہ چین کو کسی شراکت کی نہیں بلکہ نوآبادیاتی غلاموں کی ضرورت تھی اورجس کے شہریوں کی ہلاکت کو وہ پوری طرح سے غیر متعلق سمجھتاہے۔

مصنف پینٹاگون کے سابق عہدیدار ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *