Is Pentagon considering to targets Iranian-backed militias in Iraqتصویر سوشل میڈیا

عراق: (اے یو ایس)امریکی وزارت دفاع عراق میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کو نشانہ بنانے پر غور کر رہی ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب مذکورہ عراقی ملیشیائیں کئی ماہ سے عراق میں ان فوجی اڈوں کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جہاں امریکی فوجی موجود ہیں۔باخبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پینٹاگان عراق میں تہران نواز ملیشیاؤں پر حملوں کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن کی منظوری حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

مذکورہ ذرائع میں سے ایک ذریعے نے انگریزی اخبار “ڈیلی کالر” کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ عراق میں امریکیوں کے خلاف مقامی ملیشیاؤں کی جارحیت کے مقابل وسیع پیمانے پر جوابی کارروائیوں کے آپشنز کو سنجیدگی سے تلاش کر رہی ہے۔ مزید یہ کہ مجوزہ مختلف کارروائیوں اور آپشنز کو آئندہ دنوں کے دوران میں وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں زیر بحث لایا جائے گا۔دوسری جانب وائٹ ہاو¿س کی جانب سے ان معلومات پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی طرح امریکی قومی سلامتی کونسل اور پینٹاگان کے ترجمان نے بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ کئی ماہ کے دوران میں عراق میں امریکی فوجی اڈوں کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنانے کی بارہا کوششیں کی گئیں۔ ان اڈوں میں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔ امریکا کی جانب سے الزام لگایا جاتا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ایران کی ہمنوا عراقی مسلح ملیشیائیں ہیں۔روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق متعدد ذرائع نے گذشتہ ہفتے اس امر کی تاکید کی کہ تہران اب عراق میں ملیشیاو¿ں کے کارڈ کو از سر نو ترتیب دے رہا ہے ،،، اور اس نے اپنی با اعتماد ترین ملیشیاؤں سے انتہائی تربیت یافتہ جنگجوو¿ں کو منتخب کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس اقدام کا مقصد بڑی ملیشیاؤں اور تنظیموں پر انحصار سے دور رہتے ہوئے اپنے لیے انتہائی ہمنوا اور وفادار چھوٹے گروپ تشکیل دینا ہے۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مذکورہ نئے خفیہ گروپوں کو گذشتہ برس لبنان میں ڈرون طیاروں، نگرانی اور پروپیگنڈے کی جنگ کی تربیت دی جا چکی ہے۔ اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ ان چھوٹے گروپوں اور ایران کی القدس فورس کے افسران کے درمیان براہ راست رابطے ہیں۔ القدس فورس ایرانی پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم ہے جو ایران سے باہر اپنی حلیف مسلح ملیشیاو¿ں کو کنٹرول کرتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *