لاہور (اے یو ایس) پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیے بغیر ہی لانگ مارچ ختم کر چکے ہیں جس کے بعد پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا یہ حکومت کی کامیابی ہے یا عمران خان نے کچھ یقین دہانیوں کے بعد ہی دھرنا ختم کیا۔عمران خان نے جمعرات کی صبح اسلام ا?باد کے جناح ایونیو میں کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ وہ حکومت کو چھ دن کی مہلت دیتے ہیں کہ عام انتخابات کا اعلان کیا جائے ورنہ وہ دوبارہ اسلام آباد آئیں گے۔بعض تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان نے اسلام ا?باد میں لاکھوں کا مجمع جمع کرنے کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وہ مطلوبہ تعداد میں لوگ جمع کرنے میں ناکام رہے۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے رکاوٹوں کی وجہ سے عمران خان کا پاور شو متاثر کن نہیں تھا۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اگر تعداد کے حوالے سے بات کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جتنی تعداد متوقع تھی اتنے لوگ نہیں نکلے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اِس طرح کی پابندیوں میں سے نکلنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔وائس ا?ف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے کارکن ایک آرام دہ ماحول میں گاتے بجاتے نعرے لگاتے جلسے جلسوں تک پہنچتے ہیں۔ آنسو گیس اور لاٹھی چارج میں سے گزرنے کا ا±ن کا تجربہ نہیں ہے۔سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کارکن زیادہ تر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جاتے ہیں۔
لہذٰا پابندیوں کے ماحول میں وہ باہر نہیں نکلے۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان اِیک لحاظ سے تو کامیاب رہے کہ پورے ملک میں ایک تحرک پیدا کیا اور اپنی طاقت کا اظہار کیا۔ لیکن جو دعوٰی تھا کہ لوگ بڑی تعداد میں نکلیں گے وہ کامیاب نظر نہیں آیا۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ا±نہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے تحریکیں چلی ہیں۔ 1970میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک کی مثال دیتے ہوئے ا±نہوں نے کہا کہ پورے ملک میں بیک وقت احتجاج ہوتا تھا۔مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کیں اور کارکنوں کو روکا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس عوامی سیلاب کا دعویٰ کیا جا رہا تھا وہ بھی سچ ثابت نہیں ہوا۔
