سہیل انجم

جب امریکی افواج نے ایران کی القدس فورس کے چیف کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ہلاک کیا اور اس کے بعد ایران نے امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی تو دنیا ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو گئی۔ امریکہ ایران کشیدگی کے آئینے میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ نظر آنے لگا۔ دونوں جانب سے دیے جانے والے بیانات نے عالمی خوف و ہراس کو اور بڑھا دیا۔ ایران نے تین روز کے سوگ کا اعلان کیا اور اس کے بعد امریکہ سے انتقام لینے کی دھمکی دی۔ جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے اور تدفین کے بعد جس میں بھگدڑ مچ جانے سے 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے، ایران نے کارروائی کر دی۔ اس نے عراق میں واقع دو امریکی ٹھکانوں پر تقریباً ڈیڑھ درجن میزائیل داغے اور ایران کی جانب سے یہ خبر آنے لگی کہ اس کارروائی میں امریکہ کے 80 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔اس خبر نے عالمی اندیشوں میں اور اضافہ کر دیا۔

امریکہ ایک ایسا ملک ہے کہ اگر اس کا ایک فوجی یا ایک عام شہری کہیں مارا جاتا ہے تو وہ اس کا انتقام اس سے کئی گنا زیادہ نقصان پہنچا کر لیتا ہے۔ لہٰذا پوری دنیا اس خوف میں ایک بار پھر مبتلا ہو گئی کہ ہو نہ ہو اب امریکہ اور ایران میں جنگ ہو کر رہے گی اور اگر دونوں ملکوں میں جنگ ہوئی تو وہ خطے تک محدود ہو کر نہیں رہے گی بلکہ اس کا دائرہ پھیل جائے گا اور وہ عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی۔ لیکن کچھ دیر کے بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک بیان آتا ہے ”آل از ویل“۔ یعنی سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا ملک ایران کے حملے میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ بعد میں بیان دیں گے۔ اس کے بعد ایسی خبریں آنے لگیں کہ ایرانی حملے میں کوئی فوجی ہلاک نہیں ہوا ہے، نہ امرکی نہ عراقی۔ پھر امریکہ کی جانب سے بھی ایسی خبریں آنے لگیں کہ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ تاہم دنیا اس لمحے کا انتظار کرنے لگی جب صدر امریکہ بیان دینے والے تھے۔ پوری دنیا کے میڈیا نے اپنے کیمروں کا رخ وائٹ ہاوس کی جانب موڑ دیا۔

بالآخر صدر امریکہ سامنے آئے اور انھوں نے اپنے مختصر بیان میں کہا کہ ایرانی حملے میں امریکہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اس کے فوجی ٹھکانے کو بس معمولی نقصان ہوا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایران پیچھے ہٹ رہا ہے اور یہ اچھی بات ہے۔ انھوں نے ایران سے اپیل کی کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرے۔ انھوں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ امریکہ ایران پر مزید پابندیاں نافذ کرے گا۔ ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کو جائز ٹھہرایا اور انھیں دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں بہت پہلے ہلاک کر دیا جانا چاہیے تھا۔ ان کے بقول سلیمانی جیسے دہشت گرد کو ہلاک کرنے پر ایران کو امریکہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اس طرح ٹرمپ کے اس بیان کے بعد دنیا نے اطمینان کی سانس لی۔ وہ جو ایک جنگ کا اندیشہ تھا وہ ختم ہو گیا۔

اس واقعہ کے بعد پوری دنیا میں یہ بحث تیز ہو گئی کہ کیا دونوں ملک جنگ نہیں چاہتے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر ایران جنگ چاہتا تو وہ ایسی کارروائی نہیں کرتا جس میں امریکہ کو کوئی نقصان نہ ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ ایران نے اس کارروائی سے قبل عراق کے وزیر اعظم کو مطلع کر دیا تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ عراقی وزیر اعظم نے امریکہ کو مطلع کر دیا ہو۔ جس کے بعد امریکہ نے خود کے بچاؤ کا انتظام کر لیا۔ ایران کا بھی یہی کہنا ہے کہ ہم کسی کو مارنا نہیں چاہتے تھے۔ ایران کے بریگیڈئیر جنرل عامر علی حاجی زادہ نے تسلیم کیا ہے کہ میزائل حملے میں ایران کسی کو ہلاک کرنا نہیں چاہتا تھا۔ ہدف صرف امریکا کی فوجی مشین تھی۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ امریکا نے دوبارہ غلطی کی تو خطے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے 104 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ادھر ایران کے صدر حسن روحانی نے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی نے برطانیہ سمیت یوری دنیا کو داعش سے محفوظ بنایا تھا۔ اگرجنرل سلیمانی نے داعش کو شکست نہ دی ہوتی تو لندن میں آپ تحفظ کا مزہ نہ لے رہے ہوتے۔ دوسری جانب پاسدارانِ انقلاب کے نئے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے جنازے میں لوگوں کا سیلاب امڈ آنا عالمی تکبر کے خلاف مزاحمتی محاذ کے حق میں ریفرنڈم ہے۔

عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ القدس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد ایران کی محتاط جوابی کارروائی اور بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش سے خطے سے جنگ کا خطرہ وقتی طور پر بظاہر ٹل گیا ہے۔ لیکن صورت حال اتنی نازک ہے کہ فی الحال ایسا کوئی بھی دعویٰ قبل از وقت ہو گا۔ حالانکہ حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا انتقام پورا ہو گیا ہے۔ ادھر امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ امریکہ کو اطلاعات ملی ہیں کہ ایران نے اپنے حمایت یافتہ عسکری گروہوں پر زور دیا ہے کہ وہ امریکی ٹھکانوں پر حملے نہ کریں۔ یہ باتیں کافی حوصلہ افزا ہیں۔ لیکن اسی درمیان امریکہ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں نافذ کر دی ہیں جس کے بارے میں ایران کا کہنا ہے کہ یہ معاشی دہشت گردی ہے۔

مائیک پینس کے بیان کی تائید عراق کے طاقتور مذہبی، سیاسی و عسکری رہنما مقتدیٰ الصدرکی جانب سے اس وقت ہوئی جب انہوں نے اپنے حلقہ اثر کی مسلح تنظیموں سے کہا کہ وہ حملے نہ کریں۔ انہوں نے بدھ کے روز کہا کہ عراق کو لاحق بحران ٹل گیا ہے۔ تمام اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایران نے یہ حملے سوچ سمجھ کر کیے تاکہ ان سے کوئی جانی نقصان نہ ہوں۔ انہوں نے خاص طور پر چھاونیوں کے ایسے حصوں کو نشانہ بنایا جہاں انہیں معلوم تھا کہ کوئی نہیں ہو گا۔مزید احتیاط عراقی حکومت کو وقت سے پہلے مطلع کر کے برتی گئی۔ عراقی حکومت نے فوراً امریکہ کو خبردار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ ایران نے سوئٹزرلینڈ کے ذریعے امریکہ کو حملے سے پیشگی آگاہ کر دیا تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ایرانی حملے کا مقصد امریکہ کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ایک پیغام دینا تھا اور اس پیغام کا ہدف امریکہ کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے عوام بھی تھے۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ پر لیکن بظاہر پانچ باتیں ایسی ہیں جو اشارہ کر رہی ہیں کہ طوفان کے بادل اب بھی سروں پر منڈلا رہے ہیں۔
یہ پانچ باتیں درج ذیل ہیں:

صدر ٹرمپ نے ایرانی جوابی کارروائی کا جواب نہ دینے کی بات تو کی ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے ایران پر مزید پابندیاں لگانے کا بھی اعلان کر دیا اور کہا کہ یہ پابندیاں اس وقت تک نافذ رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ نہیں بدلتا۔ ایران پہلے ہی شدید پابندیوں کی زد میں ہے اور اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ مزید پابندیاں اسے دیوار سے لگانے کے مترادف ہوں گی۔

عراق میں قائم عصائب الحق نامی ایک عسکری تنظیم کے سربراہ قیس الخذرعلی کے بیان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ خطرہ ابھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایران کا جواب آ چکا ہے اب عراق کا جواب آنا باقی ہے۔ ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیمیں پورے خطے میں پھیلی ہوئی ہیں اور خاص طور پر عراق، شام، لبنان، یمن میں ان کے مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی نے بھی ایران کی شہہ پر یا خود اپنی مرضی سے امریکہ یا اس کی مفادات پر حملہ کیا تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کے خلاف مزید فوجی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن ایران کی حقیقی طاقت رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای کے ہاتھوں میں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ایرانی حملے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا مناسب جواب نہیں ہیں۔انہوں نے بدھ کے روز مذہبی شہر قم میں ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ امریکہ کو مشرقِ وسطیٰ سے بے دخل کرنا ایران کا اصل مقصد ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے امریکہ سے کسی قسم کے مذاکرات کو بھی خارج از امکان قرار دیا۔

اس کے علاوہ ایک اور بات یہ ہوئی ہے کہ ایران نے خود کو ایٹمی معاہدے سے الگ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ دوبارہ یورنیئم افزودہ کرنے کی کوششیں شروع کر دے گا۔ امریکہ اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کسی صورت میں یہ برداشت نہیں کریں گے۔

گولہ باردو کی جنگ کے علاوہ ایک اور میدان میں بھی ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں۔ جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ہیکروں نے امریکی ریاست اوکلاہوما کے شہر منی ایپلس کی بلدیہ کی ویب سائٹ کو مسخ کر کے وہاں جنرل سلیمانی کی تصویریں لگا دیں۔ اس کے علاوہ ایک سرکاری ادارے گورنمنٹ پبلشنگ آفس کی ویب سائٹ بھی ہیک کر کے اس پر صدر ٹرمپ کے منہ پر مکہ پڑنے کی تصویر چسپاں کی گئی۔ حالیہ برسوں میں ایران نے سائبر جنگ کے میدان میں خاصی ترقی کی ہے۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے شعبہ کمپیوٹر کے ڈائریکٹر کرسٹوفر کریبز نے اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ایران کے پاس تباہ کن (سائبر) حملے کرنے کی صلاحیت اور رحجان موجود ہے۔ ایرانی ہیکر نجی اور سرکاری دونوں طرح کے نیٹ ورکس کو نشانہ بنا سکتے ہیں، بلکہ پورا نظام ہی جلا کر راکھ کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیت اپنے خطے میں پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔ وہ خاصے جارحانہ بھی ہیں۔

امریکہ کئی برس پہلے ہی ایک قانون منظور کر چکا ہے جس کی رو سے سائبر حملوں کو بھی اقدامِ جنگ سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایرانی حکومت یا اس کے نان اسٹیٹ ایکٹرز نے امریکہ کے خلاف کوئی بڑی سائبر کارروائی کی تو اس کے اثرات بھی تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

بہر حال جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور ایرانی حملوں کے بعد سے جس جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا وہ بظاہر دونوں ملکوں کی دانشمندی کی وجہ سے ٹلتا ہوا نظر آرہا ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ کیونکہ بہر حال جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ خواہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہو یا امریکہ اور ایران کے درمیان۔ یا کہیں اور بھی ہو۔ جنگ سے دنیا کو بہر حال محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *