بریلی:اترپردیش میں جبراً تبدیلی مذہب سے متعلق بنائے گئے نئے قانون کو لیکر چھڑی بحث کے درمیان ، بریلی میں درگاہِ اعلیٰ حضرت کیمپس میں واقع رضوی دارالافتا ئ سے فتوی جاری کیا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ لالچ میں یا جبراً تبدیلی مذہب ناجائز ہے۔
سنی بریلوی مسلک کا مرکز درگاہ اعلیٰ حضرت کی دنیا بھر میں الگ پہچان ہے۔ یہاں سے بریلوی مسلک سے وابستہ مسلمانوں کو بھی مذہب کی معلومات دی جاتی ہیں۔قومی سنی علمائ کونسل کے صدر مولانا انتظار احمد قادری نے مرکز دارالافتا ئ کے مفتیان کرام سے سوال پو چھا کہ کیا کوئی مسلم لڑلا کسی غیر مسلم لڑسے شادی کرنے کے لئے فریب یعنی دھوکہ دہی کرکے اس کا مذہب تبدیل کرواسکتا ہے ، کیا شریعت میں لو جہاد کا کوئی وجود ہے۔
اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اسلام کا استعمال کرنے والوں کے لئے کیا حکم ہے ؟اس کے جواب میں دارالافتا ئ کے صدر مفتی مسیب الرحمن رضوی نے جانکاری دی ہے۔، جس کی تصدیق مولانا ارسلان خان نے بھی کی۔ اس سلسلے میں دونوں نے شرعی احکامات پر روشنی ڈالی ہے۔ اس جواب پر مفتی مسیب الرحمن رضوی اور مولانا ارسلان خان نے دستخط کیے ہیں۔
اسلام میں لو جہاد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ معاشرتی برائی ہے جو مغربی تہذیب سے پھیلی ہوئی ہے۔فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کے ایک ضلع کے دلت کنبہ کے ذریعہ اپنی مرضی سے مذہب تبدیل(اسلام قبول )کرنے کا ذ کر کیا گیا ہے۔ اس مثال کو اس حقیقت کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے کہ اپنی مرضی سے مذہب میں تبدیلی لانا مناسب نہیں ہے۔
فتوی میں ‘ لوجہاد’ لفظ کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ لو انگریزی کا لفظ ہے اور جہاد عربی ہے۔ یہ ایک دوسرے سے متعلق نہیں ہے۔ شریعت کی نظر میں ،لو جہاد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دارالافتا کے علمائے کرام نے ریاستی حکومت کے بنائے ہوئے قانون کی حمایت کی ہے۔