Islam teaches good manners and behaviour

فیاض احمدبرکاتی مصباحی

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جس معاشرے میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا تھا وہ پورا معاشرہ ، سماج ، وہاں کی تہذیب اور وہاںکا تمدن غیر مسلموں کا تھا۔ موحد افراد بھی چند ایک تھے۔ اس ماحول میں میں ایک آفاقی مذہب کا پیغام شروع کرنا کوئی آسان کامنہیں تھا۔اس آفاقی فکر کو اکناف عالم میں پھیلانے کے لیے جاں باز ، سرفروش ، دیدہ ور اور بہادر افراد کی ضرورت تھی۔ایسے افراد تلاش کرنے کے لیے کہیں باہر نہیں جانا تھا بلکہ عرب کے ریگزاروں سے ہی ایسے مذہبی قائدین تیار کرنے تھے اور یہ کام معاشرے سے قطع تعلق رہ کر کیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ غار حرا میں حالت سجود میں خدا کے انوار کی تجلیوں میں زندگی کے آخری پل گزارے جاسکتے تھے لیکن اس سے انسانیت منتہائے کمال کو نہیں پہونچتی ، اولاد آدم کو مقام خلیت کی سرفرازی نصیب نہیںہوتی۔ مقصد تھا انسانیت کو رشک ملائکہ بنانے اور اشرف المخلوقات کو اس کا صحیح منصب دکھانا ۔ یہ سارا کا سارا کام انسانوںسے تعلق کے بغیر ناممکن تھا۔

مشیت ایزدی کی تکمیل کے لیے چالیس سال تک جس معاشرے سے امانتانہ تعلقات قائم رہے وہمشرکین و کفار اور شرکش وسخت دل اہل مکہ کا معاشرہ تھا ،جس معاشرے سے نبی رحمت صلی اللہ علیہ کا رشتہ اس قدر اعتماد سے پرتھا کہ اہل مکہ مشکل وقت میں اپنا قیمتی سامان بارگاہ “الامین ” میں رکھ کر سکون کی سانس لیتے تھے اور مکہ کے تمام قبائل نیکی و خوش خصالی میں آپ کے مداح تھے ,تعمیر کعبہ کے موقعے سے جب مکہ کے قبائل حجراسود نصب کرنے کے سلسلے میں آپس میں دست وگریباں ہوگئے تو سب نے متفقہ طور پر آپ کو اپنا فیصل تسلیم کرلیا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات ہر ایک قبیلے کے ساتھ یکساں تھے۔ اگر مکہ کے قبائل نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے نا آشنا ہوتے تو اس اہم معاملے میں ایام جوانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکم کبھی تسلیم نہیں کرتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ وسلم نے اپنے مذہب کی دعوت پیش کی تو جن لوگوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اسے دل وجان سے قبول کیا وہ سب اسی مشرک سماج سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر کسی بھی دعوت کو کوئی بلا تعلق اس طرح نہیں اپنا لیتا ہے کہ جان ومال سب اس پر قربان کردے جب تک کہ صاحب دعوت سے شفیقانہ تعلقات وابستہ نہ رہے ہوں۔ آقائے کریم کی محبت ،شفقت ، رحمت اور شان کریمی نے عام انسانوںکے دل موہ لیے تھے۔

اخلاق وکردار کا وہ نمونہ ان کفارومشرکین کی نظروں میں انسانی فکر سے بلند تر تھا ۔ خاص بات یہ تھی کہ اس عظیم اور بابرکت ذات مقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دروازہ ہر ایک کے لیے کھول رکھا تھا۔ جس قدر وسعت اپنوں کےلیے تھی اسی قدر ان کے لیے بھی تھی جو جانتے اور مانتے نہ تھے۔ اسلام کے آفاقی اور روحانی پیغام کو ہر انسان تک پہونچانے کاجو حسین ضابطہ مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کیا تھا آئیے اس کی چند جھلکیاں دیکھتے چلیں۔انسانی معاشرے میں اخوت ومحبت اور بھائی چارگی باقی رکھنے کے لیے دعوت اور ضیافت بڑی اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح تحفہ قبول کرنا اور تحفہ دینا بھی اہمیت رکھتا ہے جس کے لیے پیغمبر آ خر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصول دیا ” تھادوا تحابوا ” ، سیرت کی کتابوں میں اس کے بے شمار شواہد ملتے ہیں خاص کر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا تحفہ میں کھجور پیش کرنا۔جنگ خیبر کے بعد یہودیہ کی دعوت قبول کرنا اور قبیلہ ثقیف کے لیے مسجد نبوی کے صحن میں خیمہ لگاکر انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرانا۔ سیرت کے ان ہی گوشوں سے فقہائے اسلام نے یہ اصول لیا ہے کہ ” ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو دعوت دے تو اسے قبول کرنا بہترین عمل ہے۔

بلاوجہ اسے رد کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے۔ ۔ غیر مسلموں کی دعوت بھی جائز ہے کہ قبیلہ ثقیف کے کھانے پینے کا انتظام کرنے کا حکم حضرت خالد بن سعید کو دیا گیا تھا۔آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پوری انسانیت کے لیے عام ہے ،اس روحانی مشن کو ہر انسان تک پہونچانا اس امت کی ذمہ داری ہے۔کتاب ورسائل اخبارات ٹیلی ویڑن کی شکل میں جو اسلام کا نام لوگوں تک پہونچ رہاہے یا پہونچا ہے وہ ناکافی ہے۔ اس لیے کہ ان ذرائع نے اسلام کے خلاف بہت کچھ غلط پروپیگینڈہ پھیلا رکھا ہے ،اگر صرف نام پہونچنا ہی کافی ہوتا تو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم ابتداء میں بنفس نفیس ہر ایک تک اپنی دعوت نہیں پہنچاتے بلکہ دوسرے ذرائع سے پہونچ جانے پر اکتفا کرتے۔ اسلام صحیح شکل میں پہونچانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے سے اخلاقی تعلقات استوار ہوں۔ اس لیے حکم دیا گیا ہے کہاگر کوئی شخص بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کی جائے اور مزاج پرسی کی جائے۔ اس سے ہم دردی کا اظہار بھی ہوتا ہے اورمریض کوطمانیت قلبی بھی حاصل ہوتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا رسول اکرﷺ کی خدمت پر مامور تھا ، وہ بیمار ہوا تو نبی ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ دوسروں کے لیے دعا قلبی سخاوت ، ذہنی وسعت اور انسانی ہمدردی کا صاف وشفاف آئینہ ہے۔

اس میں ہمدردی کا اظہار بھی ہوتا ہے اور انسانیت سے محبت کا ثبوت بھی۔ اس لیے کہ ایک اچھا انسان دوسروں کے لیے وہی چاہتا ہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ اسلام نے دوسروں کی خوشحالی ، ترقی اور راحت کی تمنا کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ دل حسد کی آگ میں جلنے سے محفوظ رہے۔ دعا مسلموں کے لیے بھی کی جائے گی اور غیر مسلموں کے لیے بھی۔ مصنف ابن عبد الرزاق نے ایک روایت حضرت انس کی روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے پینے کے لیے کوئی چیز طلب کی ، اس نے وہ یش کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دعادی کہ اللہ تمہیں حسین وجمیل رکھے چنانچہ مرتے دم تک اس کے بال سیاہ رہے۔پڑوسی کے حسن سلوک کی تاکید احادیث میں کثرت سے آئی ہیں اس پر صحابہ کرام کا سختی سے عمل رہا ہے۔ حضرت عبداللہ ابنعمر نے ایک بار ایک بکری ذبح کی ، غلام کو حکم دیا کہ سب سے پہلے پڑوسی کو گوشت پہونچائے ، ابن عمر ؓکا پڑوسی یہودی تھا۔ ایک شخص نے کہا وہ تو یہودی ہے۔ ابن عمر ؓنے فرمایا یہودی ہے تو کیا ہوا ؟ یہ کہہ کر نبیﷺ کاارشاد نقل فرمایا کہ جبریل امین نے مجھے پڑوسیوں کے حقوق سے متعلق اس قدر اورمسلسل وصیت کی کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ وہ پڑوسیوں کو وراثت میں حصہ داربنادیں گے۔تاہم بہتر یہ ہے کہ پہلے غیر مسلموں کی ہدایت کے لئے د±عا کی جائے ، یہی اصل ہمدردی اور خیر خواہی ہے ، اس لئے کہ ممکن ہے وہ اس دعا کی وجہ سے ہمیشہ کے عذاب سے محفوظ رہیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اکثر ہدایت کی د±عا فرماتے تھے۔شریعت نے عدل و انصاف کی بہت سخت تاکید کی ہے بلکہ یہ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ انسان کسی بھی حال میں ہو وہ عدل و انصاف کو ترک نہ کرے۔

اسلام اپنے متبعین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی فرد یا گروہ پر دست تعدی درازکریں ، چاہے اس سے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں اور اس نے کتنی ہی زیادتی کیوں نہ کی ہواس لئے کہ عدل سے کام نہ لیناظلم ہے اور ظلم کبھی اللہ تعالیٰ کو برداشت نہیں،خواہ وہ کسی جانور کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔آپﷺنے مظلوم کی بدد±عا سے بچنے کی تاکید کی ہے ، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں داخل ہیں۔حضرت عبید ا بن فاروق رضی اللہ عنہ نے2 کافروں کو اس شبہ میں قتل کردیا کہ وہ قتل عمر میں شریک تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر پہنچے تو انھوں نے مہاجرین و انصار سے رائے لی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتویٰ دیاکہ عبید اللہ بن فاروق کی گردن اڑا دی جائے مہاجرین نے بالاتفاق کہاکہ عمر کے بیٹے کو قتل کردینا چاہئے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس سے خون بہا ادا کرکے معاملہ رفع دفع کردیا۔غیر مسلموں کے حق میں صحابہ کرا م رضی اللہ عنہ نے عدل و انصاف کا جو نمونہ پیش کیا ہے۔ اقوام عالم میں اس کی مثال نہیںملتی ، مسلمان اپنی زندگی میں اگر یہ کردار شامل کرلیں تو سماج میں پائے جانے والے اختلافات بڑی حد تک ختم ہوسکتے ہیں۔مسجد ایک مقدس جگہ ہے ، اس کو پاک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہاں مسلمان عبادت کرتے ہیں ، اس لئے ہر طرح کی آلودگی ،بچوں کی آمد و رفت ، شور و شرابہ ، ناپاک لوگوں کے داخلے سے حفاظت ایمان کا حصہ ہے ، اس کے باوجود غیر مسلم اقوام کے مسجد میں داخلہ اور قیام کا ثبوت ملتا ہے۔

وفد ثقیف جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے ان کے لئے مسجد میں خیمہ لگوایا تاکہ وہ مسلمانوں کو نماز پڑھتے دیکھیں۔ آپﷺ سے عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ﷺ انھیں مسجد میں ٹھہرا رہے ہیں جبکہ وہ مشرک ہیں۔آپ ﷺنے فرمایا:زمین نجس نہیں ہوتی ، نجس تو ابن آدم ہوتا ہے ( نصب الرایہ )۔ غیر مسلم کو عقیدے کے اعتبار سے قر آن نے ناپاک کہا ہے تاہم جسمانی اعتبار سے اگر وہ پاک صاف رہیں تو مسجد میں داخلے کی ممانعت نہیں ہوگی ، بالخصوص اس نیت سے کہ مسلمانوں کے طریقہ عبادت ، ان کی اجتماعیت اور سیرت و اخلاق کو دیکھ کران کے دل نرم پڑیں اور اسلام کی طرف وہ مائل ہوں جیسا کہ آپ ﷺ نے مختلف وفود اور اشخاص کو مسجد میںقیام کی اجازت اسی مقصد کے تحت دی تھی, یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی ا?دم یکساں ہیں۔موت ایک خوفناک حادثہ ہے۔یہ حادثہ مسلمانوں کو ہوتو وہ یقینا لمحہ فکر ہے لیکن غیر مسلم کے گھر میں بھی یہ حادثہ پیش آئے تواس کی بھی تعزیت کی جانی چاہئے اور انسانی ہمدردی کا اظہار کیاجانا چاہئے ، یہ ایک سماجی تقاضا ہے اور عین اسلام کی تعلیم پرعمل ہے۔

امام ابویوسفؒ کا بیان ہے کہ حضرت حسن بصری کے پاس ایک نصرانی آتا اور آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا۔جب اس کا انتقال ہوا تو انھوں نے اس کے بھائی سے تعزیت کی اور فرمایا : تم پر جو مصیبت آئی ہے ، اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا وہ ثواب عطا کرے جو تمہارے ہم مذہب لوگوں کو عطا کرتا ہے ، موت کو ہم سب کے لئے برکت کا باعث بنائے اور وہ ایک خیر ہو جسکا ہم انتظار کریں ، جو مصیبت آئی ہے ، اس پر صبر کا دامن نہ چھوڑو۔ کاروبار ، خرید و فروخت ، لین دین انسانی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ یہ چیزیں جس طرح مسلمانوں کے ساتھ درست ہیں اسی طرح غیر مسلم افراد کے ساتھ بھی جائز ہیں ، غیر مسلم طبقے سے تجارتی تعلقات شرعی حدود میں رہتے ہوئے کئے جاسکتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ انسانیت میں ساری ا قوام شامل ہیں ، جہاں انسانیت کی بات آئے گی وہاں ان کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی روا داری وغیرہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی جائے گی ، اچھے اخلاق کے ذریعہ ہم ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیں گے تاکہ اسلام کی اچھی تصویر ان کے ذہن میں بیٹھے اور کم از کم اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نرم گوشہ ان کے دل میں پیدا ہوتاکہ یہ زمین انسانوںکے لیے پرسکون ہو۔

(مضمون نگار استاذ جامعہ اہلسنت نورالعلوم عتیقیہ مہراج گنج بازار ترائی ضلع بلرامپور کے مدرس ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *