Islamic signs and symbols are being removed in Xinjiang province by Xi regimeتصویر سوشل میڈیا

شاید اب سے ایک سال کے اندر چین کے شن جیانگ نگ ایغور خودمختار خطے کے ، جو کبھی لاکھوں ایغور اور قازقان مسلمانوں کا وطن رہ چکا ہے، کے زائرین کو شاید اس بات کا ثبوت بھی نہ مل سکے کہ اسلام صدیوں تک وہاں پروان چڑھا۔غالبا ً جدید تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہوگا جس میںکسی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کے مذہب اور اس کی ثقافت اور رسم و رواج کو نہ صرف نیست و نابود کر دیا جائے گا بلکہ وہاں مقیم مسلمانوں کو اکثریتی ثقافتی، تاریخی اور لسانی اور سیاسی اصولوں پر عمل کرنے پر مجبور بھی کیا جائے گا۔کینبرا میں قائم دفاعی اور تزویراتی پالیسی کے تھنک ٹینک، آسٹریلیائی اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) کے توسط سے اسی ستمبر میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے، جس میں چینی حکومت کے 2016 کے اس منصوبے کو بے نقاب کیا گیا ہے کہ”کسی بھی اسلامی، بین ملکی یا خودمختار عناصر کو ختم کرکے ایسے مقامی ثقافتی روایات کو اپنانے کا حکم دیا گیاجن پر چینی قوم عمل پیرا ہے۔

یہ مضمون اس رپورٹ کے دائرہ کار سے باہر یہ تجزیہ کرتا ہے کہ صدر شی کی حکومت نےشن جیانگ میں اسلامی روایت کو منظم طور پر ختم کرنے کا طریقہ کار کیسا ہے۔ اس خطے میں ایک بار یہ عمل پایہ تکمیل کو پہنچ جائے تو ایسے دوسرے صوبوں میں بھی نافذ کیا جائے گا جہاں مسلم آبادی نمایاں ہے۔اے ایس پی آئی کی رپورٹ میں چینی حکام کے ذریعہ خطے کی مساجد کی تباہی کا تذکرہ ہے۔ سیٹیلائٹ کی تصویری شکل کا استعمال کرتے ہوئے ہم اندازہ لگاتے ہیں کہشن جیانگ میں تقریباً 16000 مساجد (مجوعی تعداد کا تقریباً65فیصد ) کو مسمار کردیا گیا یا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 8500 مساجد کو مکمل طور پر مسمار کردیا گیا ہے۔ مزیدشن جیانگ کی 30 فیصد اہم اسلامی مقدس مقامات (مزارات، قبرستان اور زیارت گاہ کے راستوں، بشمول بہت سی چینی قانون کے تحت تحفظات) کو زیادہ تر 2017 سے تا دم تحریر مسمار کیا جا چکا ہے۔ثقافتی انقلاب کے بعد پورے شن جیانگ کی مساجد کو دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا، اور 2012 اور 2016 کے درمیان عربوں اور اسلامی طرز کے گنبدوں اور میناروں کی تعمیر سمیت نمایاں طور پر کچھ مساجد کی تزئین و آرائش کی گئی تھی۔ لیکن اس کے فورا بعد ہی تباہی شروع ہوگئی۔

تاہم اس رپورٹ میں ایک استثنا کا حوالہ دیا گیا ہے: ” شن جیانگ کے بقیہ علاقوں میں بڑی تعداد میں سیاحوں کے ذریعہ زیارت کیے جانے والے علاقوں میں یہ رجحان مستثنیٰ ہے: علاقائی دارالحکومت، ارومقی اور کاشغر شہر میں تقریبا تمام مساجد ساختی طور پر سالم ہیں۔ “حکومت نے افراد خانہ کو بتاکر یا بغیر بتائے ہی بیک وقت ہزاروں قبریں اور اسلامی ڈھانچوں کو مسمار کر کے مسلمانوں کے قبرستان کی زمین اور مسلم علاقوں کو مسطح کردیا اور فوری طور پر اس زمین پر ما لز، اسٹورز اور شہری عمارتیں تعمیر شروع کر دیں۔ بالآخر کاشغر کی تاریخی کارگلک کاو¿نٹی (یچینگ) کی مشہور جامع مسجد کی بے حرمتی کی گئی۔ 1540 میں تعمیر اس مسجد کو شن جیانگ علاقائی طور پر محفوظ ثقافتی ورثے کی جگہ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا – جو تاریخی آثارقدیمہ کو تحفظ فراہم کی جانے والی دوسری اعلی سطح کی جگہ تھی۔کریک ڈاو¿ن نے اس مسجد کو نشانہ بنایا۔ بیشتر ”موزیک فن پاروں کو رنگ دیا گیا ، عربی تحریر کو ختم کردیا گیا ، چاند کے نقش کو ہٹا دیا گیا یا تبدیل کردیا گیا، اور ایک بڑے سرکاری پروپیگنڈے کے بینر کو مسجد پر لٹکا دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ ’پارٹی سے پیار کرو، ملک سے پیار کرو‘۔ اس کے بعد اس کے تاریخی داخلی راستہ کو مسمار کردیا گیا۔“کچھ مساجد انہدام سے بچ گئیں، لیکن وہ مساجد ”کیفے بار اور عوامی بیت الخلا ءتک“میں تبدیل کردی گئیں۔ کچھ مساجد اب بھی کھڑی ہیں، مقفل ہیں۔ ان میں نماز نہیں پڑھی جاتی۔

ایغوروں کا کہنا ہے کہ وہ صدر شی کے ” تزئین مسجد” منصوبے کا شکار ہیں۔ اس کی شروعات جون، 2015 میں مشاہدے میں ہوئی ، جب الٹائے کے شمالی صوبے میں سرکاری چینی کمیونسٹ پارٹی کے ایک محقق یانگ ویوی نے لکھا ہے کہ” شن جیانگ میں مساجد کی تعداد اب تک عام مذہبی سرگرمیوں کی ضروریات سے زیادہ ہے‘ یہ علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو مذہب کے نام پر مقام اجتماع فراہم کرتا ہے، اور سی سی پی اصول کو چیلنج کررہے ہیں۔‘ ان کی رپورٹ میں خصوصی طور پر یہ سفارش کی گئی ہے کہ مساجد کو منہدم کیا جائے ، جس میں کہا گیا ہے کہ ہر انتظامی اکائی میں صرف ایک ہی مسجد ہونی چاہئے ، اور یہ کہ ان کے ڈیزائن سخت متحدہ کے معیارات کے مطابق ہونے چاہئے (اس کا مطلب اسلامی اور عربی فن تعمیر کو ختم کیا جائے)، اور ان کے افتتاحی اوقات ہر ہفتہ اور چھٹیوں میں ایک دن تک محدود کیا جائے۔صدر شی کی توجہ اس رپورٹ پر مرکوز ہوئی۔ انہوں نے اپریل ، 2016 میں قومی مذہبی ورک کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے مذہبی آزادی کے احترام اور مذہبی آزادی اور خود انتظامی کے اصول کو برقرار رکھنے کے اپنے وعدے کا اعادہ کیا۔ پھر یہ اسٹرائک آئی: سوشلسٹ معاشرے کو اپنانے میں مذاہب کی مدد کریں۔کیسے؟ ”مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں“کو متحد کرکے۔

انہوں نے اس پالیسی کا حکم دیا: ”اس دوران مذہبی گروہوں کو سی پی سی کی قیادت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے، اور چینی خصوصیات والے سوشلسٹ نظام اور سوشلزم کی حمایت کرنا ہوگی۔ انہیں مذہبی عقائد کو چینی ثقافت کے ساتھ ضم کرنا چاہئے، چینی قوانین اور قواعد و ضوابط کی پاسداری کرنی چاہئے، اور چین کی اصلاحات اور قومی تجدید نو کے چینی خواب کی تعبیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے سوشلسٹ جدیدیت کو شروع کرنے میں خود کو وقف کردینا چاہئے۔ “انہوں نے شرائط پیش کیں: ”ہمیں مذہبی ذرائع کے ذریعہ بیرون ملک کی دراندازیوں کے خلاف پوری شدت سے حفاظت کرنی ہوگی اور انتہا پسندوں کی نظریاتی خلاف ورزی کو روکنا ہوگا۔“کیسے؟ حکام کو چاہئے کہ وہ مذہبی امور پر آن لائن توجہ دینے کی حوصلہ شکنی کریں اور پارٹی کی مذہبی پالیسیوں اور نظریات کی آن لائن حوصلہ افزائی کریں۔

صدر شینے حکم دیا:”سی پی سی ممبران کو لازمی طور پر ‘اڑیل مارکسسٹ ملحدوں کی حیثیت سے کام کرنا چاہئے ، اپنے عقیدے کو مستحکم کرنا چاہئے ، اور پارٹی کے اصولوں کو ذہن میں رکھناچاہئے۔ انہیں مذاہب سے اپنی اقدار اور اعتقادات کی تلاش نہیں کرنی چاہئے۔“سب سے پہلے یہ حکم شن جیانگ میں یہ حکم نافذ کیا گیا۔”عوامی خدمات اور تحفظ کو بہتر بنانے“کی آڑ میں ’ تزئین مسجد‘مہم کا آغاز کیا گیا۔ مساجد کو منہدم کرنے کے بعد حکومت نے اسلام کی نگرانی کے لئے کچھ ضوابط کو منظور کیا۔ یہ ذمہ داری سی سی پی کے یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈپارٹمنٹ (یو ایف ڈبلیو ڈی) کے حوالے کردی گئی۔محکمہ نے شن جیانگ میں ایک سرکلر جاری کیا، جس میں مساجد کو مندرجہ ذیل کام کرنے کا حکم دیا گیا: قومی پرچم لٹکا ئیں ، چینی آئین ، قوانین اور ضوابط کی کاپیاں پوسٹ کریں، بنیادی سوشلسٹ اقدار کو برقرار رکھیں۔ اور’شاندار روایتی چینی ثقافت‘ کا کریں۔ اس کا مطلب مندرجہ ذیل ہے: عربی خطاطی، میناروں، گنبدوں اور ستارے اورچاند اور دیگر’غیر ملکی’ سمجھی جانے والی علامتوں کو ختم کریں اور روایتی چینی تعمیراتی عناصر کو ان کی جگہ دیں۔بعد میں شن جیانگ کے عہدے داروں کے ذریعہ جاری کردہ احکامات میں کہا گیا ہے کہ ایغوروں کو زنجیانگ میں ‘حلال کرنے’، ‘مسلم بنانے’ اور ‘عربیت اپنانے’ جیسے مذہبی امور کو پذیرائی نہ دے کر ” چینی روایت“ کو قبول کرنا چاہئے۔ریاستی میڈیا نے اس تصحیح کو جواز پیش کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ اویغور زنجیانگ میں ”مہاجر“ تھے اور غیر ملکیوں نے ان پر اسلام تھوپ دیا تھا۔ دوسرے ممالک کی طرف سے کوئی احتجاج نہ ہونے کی وجہ سے چینیوں نے مساجد کی تباہی کی باضابطہ ذمہ داری لے لی۔

کاشغر شہر میں نسلی اور مذہبی امور کی کمیٹی نے ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا: ”ہم نے نمازیوں کی حفاظت یقینی بنانے کے مقصد سے اصلاحی مہم کا آغاز کیا کیونکہ تمام مساجد بہت پرانی تھیں۔ ہم نے شہر کی تقریبا 70 فیصد مساجد کو مسمار کیا کیونکہ وہاں کافی مساجد موجود تھیں اور کچھ غیر ضروری تھیں۔2019 کے بعد جیسے ہی چین میں کوویڈ۔19 کی وبا پھیلی، شی حکومت نے تمام ڈھونگ چھوڑ دیئے۔ سی سی پی کے اعلیٰ مذہبی پالیسی مشیر جھانگ ڑونمو نے باضابطہ طور پر کہا: ”(مذہبی کام) کا حتمی مقصد اس کی مکمل داخلی اور بیرونی چینی ثقافت کا حصول ہے۔“مبصرین کا کہنا تھا کہ چند ماہ میں شن جیانگ میں چینی ثقافت کا عمل مکمل ہوجائے گا۔

ٹویٹس:* یونیسکو اور آئی کوموس کو شن جیانگ میں موجود ایغور اور اسلامی ثقافتی ورثے کی تحقیقات فوری طور پر کرنی چاہئیں اور اگر چینی حکومت دونوں تنظیموں کے اصول کی خلاف ورزی کرتی ہے تو اسے مناسب سزا دی جانی چاہئے۔*

بیجنگ کا حامی گلوبل ٹائمز:شن جیانگ میں تقریبا 24000 مساجد ہیں، ہر 530 مسلمانوں کے لیے ایک مسجدہے۔ شن جیانگ میں مساجد کی تعداد امریکہ کی بنسبت 10 گنا زیادہ ہے۔

اسلامی تنظیموں کی ملیشیائی مشاورتی کونسل کے صدر محمد عزمی عبد الحمید کہتے ہیں: “ہم چینی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کی خصوصیات اور ثقافت کو تبدیل کرنے کی پالیسی کے طور پر”چینی ثقافت اپنانے” کی پالیسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں جس کے پس پردہ یہ راز پوشیدہ ہے کہ ہر چیز چینی کمیونسٹ نظام کی خواہشات کے مطابق ہو۔ چینی صرف انکشاف کردہ داستان کی تردید نہیں کر سکتے۔۔۔۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *