Israel demands US to mount pressure on Iran to allow inspection of suspected nuclearتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن: (اے یو ایس ) امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی سفارت کاروں نے بدھ کو توقع ظاہر کی ہے کہ امریکا اور یورپی ٹرائیکا، جس میں فرانس، جرمنی اور برطانیہ شامل ہیں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ذریعے ایران کے خلاف ایک قرارداد جاری کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے جس میں تہران سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو مشتبہ غیر اعلانیہ جوہری تنصیب کے معائنے کی اجازت دے اور اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔’ایگزیئس‘ ویب سائٹ کی رپورٹ میں باخبر ذرائع سے کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی کونسل کا آئندہ اجلاس منگل کو وائٹ ہاو¿س میں امریکی اور اسرائیلی حکام کی طرف سے زیر بحث آنے والے اہم موضوعات میں سے ایک تھا۔

ذرائع نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکام نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے اگلے ہفتے ہونے والے ایٹمی توانائی ایجنسی کے اجلاس میں ایران کو مورد الزام ٹھہرانے کے لیے تہران کے خلاف سخت فیصلے کے لیے دباو¿ ڈالنے پر زور دیا تاہم امریکا نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے فیصلے کے اجرائ سے جوہری معاہدے تک پہنچنے کا دروازہ مکمل طور پر بند ہو سکتا ہے، جو بائیڈن انتظامیہ نہیں چاہتی۔یہ پیش رفت امریکا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی پر مشمل ای3 گروپ کی طرف سے اگلے ہفتے بورڈ کے اجلاس کے لیے تیار کردہ ایک مسودہ قرارداد سے قبل سامنے آئی ہے، جس میں تہران سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ تین نامعلوم مقامات پر پائے جانے والے یورینیم کے آثارکے بارے میں ایجنسی کے طویل انتظار کے سوالات کے جوابات دے۔

’آئی اے ای اے‘ کے ارکان کو بھیجے جانے والے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’آئی اے ای اے‘ کا 35 ملکی بورڈ آف گورنرز ایران سے مطالبہ کرے گا کہ وہ “اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے فوری طور پر کام کرے اور فوری طور پر آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کی پیش کردہ مزید سوالات کے جوابات اور معلومات فراہم کرنے کی ضرورت پر غور کرے۔دوسری طرف تہران کے بورڈ آف گورنر کے آئندہ اجلاس میں کسی بھی ایسی کارروائی کا “مضبوط” جواب دینے کا عزم کیا گیا ہے جسے وہ غیر تعمیری سمجھتا ہے۔ایرانی حکومت کے ترجمان بہادری جہرمی نے کہا ہے کہ تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ویانا کے جوہری مذاکرات منقطع نہیں ہوئے ہیں۔ حکومتی ترجمان نے مزید کہا کہ ایران نے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات کے دوران “اپنی سنجیدگی اور خیر سگالی کا مظاہرہ کیا”۔ایجنسی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایرانی حکام نے اس حوالے سے نئی کوششوں کے باوجود تین غیر اعلانیہ مقامات پر یورینیم کے آثار کے ماخذ کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا قابل اعتبار جواب نہیں دیا۔

عالمی توانائی ایجنسی کا کہنا ہے کہ تہران نے ان سائٹس میں جو کچھ دیکھا اس کے بارے میں تکنیکی معتبر وضاحتیں فراہم نہیں کیں گئیں۔ اس کے علاوہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے جو جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے درکار 90 فیصد کے قریب ہے۔قابل ذکر ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان باقی رہ جانے والے حل طلب مسائل کے حل میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے 35 ممالک پر مشتمل ’آئی اے ای اے‘ کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہونے پر تہران اور مغرب کے درمیان ایک نئے سفارتی تنازعے کی شروعات ہو سکتی ہیں۔ اگر مغربی طاقتیں تہران پر تنقید کرنے والی قرارداد پاس کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو یہ اس وقت تعطل یا منجمد کوششوں کے لیے ایک اضافی دھچکا بنے گا جن میں سے کم از کم 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کو بحال کرنا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *