واشنگٹن:( اے یوایس) مشرقِ وسطیٰ کی اہم ترین کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے امن معاہدے خطے میں کاروبار کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دبئی کی کمپنی ڈی پی ورلڈ کے چیئرمین اور سی ای او سلطان احمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں کی وجہ سے کاروباری روابط میں موجود رکاوٹیں ختم ہوں گی کیونکہ تجارتی راستے چھوٹے ہوں گے اور یورپ کے ساتھ کاروبار کرنا اور زیادہ آسان ہوگا۔
اسرائیلی اندازوں کے مطابق ان کے اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تجارت سالانہ چار ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے اور اس سے 15000 نوکریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔سلطان احمد بن سلمان ان اندازوں سے متفق ہیں اور ان کے مطابق دونوں جانب فائدے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا ’ہمیں اسرائیل سے کچھ چاہیے اور اسرائیل کو ہم سے کچھ چاہیے۔‘اس حوالے سے تجارت میں سب سے زیادہ امکان ٹیکنالوجی کے شعبے میں پیش رفت کا ہے، جہاں سائبر سیکیورٹی اور صحتِ عامہ اور زراعت کے شعبے میں تجارت ہوگی۔
تجارت میں اضافے میں بہت سے ایشیائی ممالک کی برآمدات کے براستہ دبئی جانے کی وجہ سے کافی قائدہ ہوگا۔اس ہفتے ایم ایس سی پیرس وہ نامی بحری جہاز ان ابتدائی کارگو جہازوں میں سے ایک تھا جس نے دونوں ممالک کے درمیان سفر کیا۔ اس کے علاوہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے باضابطہ طور پر معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اس جہاز کے ذریعے آنے والے کارگو کو کسی بڑی چیز کی ابتدا قرار دیا ہے۔ڈی پی ورلڈ دنیا میں بندرگاہیں چلانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے اور یہ اسرائیلی کمپنی ڈوور ٹاور کے ساتھ کام کرنے لگی ہے۔ اسرائیل اپنی بندر گاہوں کو جدید تر بنانا چاہتا ہے اور اس کی دو بندر گاہیں اشدود اور حائفہ اس کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
سلطان احمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اپنی عزائم میں وسعت کی وجہ سے ہی یہ کمپنی کارگو انڈسٹری میں دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں کورونا کی عالمی وبا کے دوران بہتر کارکردگی دے سکی ہے۔کورونا کی وبا سے قبل دنیا بھر کے دس فیصد بحری کنٹینر ڈی پی ورلڈ استعمال کرتی تھی جس میں کاروں سے لے کر ایلکٹرانکس سبھی کچھ لے جایا جاتا تھا۔ اس سال ان کنٹینروں کی تعداد میں کمی آنی ہے۔
آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے کہ اس سال عالمی معیشت 4.4 فیصد سکڑے گی۔سلطان احمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ سب کے لیے ہی مشکلات آ چکی ہیں۔ ’تمام شپنگ کمپنیاں اور بندر گاہیں چلانے والی کمپنیاں لاک ڈاو¿ن ہونے کی وجہ سے حیران ہو کر رہ گئیں اور اب انھیں مختلف اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔‘2020 کے ابتدائی چھ ماہ میں ڈی پی ورلڈ نے 33.9 ملین ٹی ای یو (بیس فٹ کے کنٹیٹر کے برابر) سامان ٹرانسپورٹ کیا ہے جو کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں 3.9 فیصد کم ہے۔
ان کی سب سے زیادہ کمی امریکہ اور آسٹریلیا میں ہوئی ہے۔تاہم میری ٹائٹ ریسرچ کمپنی ڈروئری کے تخمینے کے مقابلے میں یہ کم ہے جن کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر یہ 5.6 فیصد کمی دیکھیں گے۔سلطان احمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی بہتر پرفارمنس اس لیے ہوئی کیونکہ ان کے پاس دنیا بھر میں مقامات اور بندرگاہیں ہیں اسی لیے انھیں کسی ایک جگہ پر زیادہ اثر کا بہت زیادہ نقصان نہیں ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ہم دنیا کے کسی ایک حصہ سے متاثر نہیں ہوتے۔
ہم تقریباً دنیا کے ہر کونے میں پھیلے ہوئے ہیں، ایشیا بعید، یورپ، لاطینی امریکہ، آسٹریلیا، افریقہ۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سال کے آخر تک ہم پر مجموعی اثر 6 فیصد سے کم ہوگا۔‘وہ کہتے ہیں کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے کمپنی نے جدید تر ٹیکنالوجی اپنائی ہے جس کی وجہ سے ان کی کمپنی میں زیادہ آٹومیشن ہوئی ہے اور ان کی پروڈکٹیویٹی بھی بڑھی ہے۔ان کی کمپنی کے لیے ایک اور مشکل یہ ہے کہ 127 مقامات پر کام کرتے ہوئے انھیں کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
متعدد کارگو جہازوں پر اس وبا کے کیسز سامنے آئے ہیں اور سلطان احمد بن سلمان کہتے ہیں کہ پوری صنعت کے لیے یہ ایک اہم چیلنج ہے۔زیادہ تر ممالک نے اس حوالے سے سخت پابندیاں عائد کی ہیں جن کے باعث کارگو جہازوں پر کام کرنے والے ساحل سے اندر مشکل سے آ سکتے ہیں اور ان کا بندرگاہ کے عملے کے ساتھ تعلق کم سے کم ہوتا ہے۔سلطان احمد بن سلمان کہتے ہیں کہ ڈی پی ورلڈ میں اب صفائی کا ایک خصوصی نظام مرتب کیا گیا ہے جس میں ان کا عملہ جس چیز کو ہاتھ لگاتا ہے اسے ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔