یروشلم:(اے یو ایس)اسرائیلی حکومت نے قوم پرست اور سخت گیر یہودیوں کو یروشلم کے مسلم علاقوں میں متنازعہ مارچ کی اجازت دے دی ہے۔ جس پر حماس نے خطے میں ایک بار پھر کشیدگی پیدا ہونے کے تئیں خبردار کیا ہے۔اسرائیل میں چند روز کی مہمان بینجمن نیتن کی حکومت نے سخت گیر اور قوم پرست یہودیوں کو مقبوضہ مشرقی یروشلم کے مسلم آبادی والے علاقوں میں ‘یرو شلم ڈے’ کی مناسبت سے پریڈ نکالنے کی پھر سے منظوری دے دی ہے۔
پہلے یہ ریلی اسی ہفتے جمعرات کو ہونے والی تھی تاہم پولیس نے مسلم علاقے میں اس کے اصل راستے پر اس کی اجازت دینے سے منع کر دیا تھا اس لیے اب حکومت نے اگلے ہفتے 15 جون منگل کے روز کی تاریخ مقرر کی ہے۔لیکن فلسطینی علاقے غزہ پر حکمرانی کرنے والے اسلامک گروپ حماس نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے اور کہا کہ اگر یہ ریلی ان علاقوں سے گزری تو اس کے سنگین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں اور اس سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔
گزشتہ ماہ بھی اسی علاقے میں کشیدگی کے سبب اسرائیل اور حماس کے درمیان شدید لڑائی چھڑ گئی تھی جو گیارہ دن تک جاری رہی۔ اس میں درجنوں کم سن بچوں اور خواتین سمیت تقریباً ڈھائی سو فلسطینی ہلاک ہوئے تھے جبکہ 13 افراد اسرائیل میں مارے گئے تھے۔پولیس کے اعتراض کے بعد سخت گیر یہودیوں اور اس پریڈ کے منتظمین نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم آٹھ جون منگل کے روز نیتن یاہو کی کابینہ نے اس معاملے پرایک میٹنگ کی اور ایک بیان میں کہا کہ وزرا ءنے آئندہ ہفتے اس مارچ کے نکالنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔بینجمن نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا، ”آنے والے منگل کو یہ پریڈ اسی فارمیٹ کے تحت ہو گی، جس پر پریڈ کے منتظمین اور پولیس کے درمیان اتفاق ہوا ہے۔اسرائیل میں حزب اختلاف کی متعدد جماعتوں نے جب سے مشترکہ طور پر ایک مخلوط حکومت بنانے کا اعلان کیا ہے اس وقت سے نیتن یاہو سخت سیاسی دباؤمیں ہیں۔
اگر نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو گزشتہ 12 برس سے جاری نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔اتوار کے روز اسرائیل کی پارلیمان، کینسٹ، میں نئی مخلوط حکومت پر ووٹنگ ہونی ہے اور اگر ان جماعتوں کو مخلوط حکومت سازی کے عمل میں کامیابی ملتی ہے تو اسرائیل کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے بینجمن نیتن یاہو کا اقتدار ختم ہو جائے گا۔نئی حکومت کی قیادت انتہائی سخت گیر اور یہود ی قوم پرست رہنما نیفتالی بینٹ اور اعتدال پسند رہنما یائر لیپید کے ہاتھ میں ہو گی اور اگر ان کی حکومت بن جاتی ہے تو اس مارچ کے بارے میں حتمی فیصلہ بھی وہی کریں گے کہ اس کی اجازت دی جائے یا نہیں۔