ٹوکیو: (اے یو ایس) جاپان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ جاپان اپنے سفارت خانے کے تقریباً تمام عملے کو یوکرین سے نکالنے کی کوششیں کر رہا ہے اور ساتھ ہی جاپانی شہریوں سے بھی کہا ہے کہ وہ یوکرین سے فوری طور پر نکل جائیں۔وزارت نے اتوار کو کہا کہ کیف میں جاپانی سفارت خانہ سفارتی عملے کی واپسی کے بعد صرف محدود خدمات جاری رکھے گا۔جاپان کی وزارت خارجہ نے گزشتہ روز کہا کہ جاپان نے یوکرین میں رہنے کے خطرے کے بارے میں ایک سنگین انتباہ جاری کیا ہے اور اپنے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان جلد از جلد یوکرین سے نکل جائیں۔
قبل ازیں امریکہ بھی اپنے شہر یوں اور سفارتی عملہ کو یوکرین کو خیرباد کہنے کا مشورہ دے چکا ہے۔اسکے ساتھ ہی صدر جو بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے حلیف فیصلہ کن ردِ عمل دیں گے اور روس کو اپنے اس اقدام کی “فوری اور بھاری قیمت” چکانا ہوگی۔ہفتے کو روسی صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ یوکرین پر حملے کے نتیجے میں خطے میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔گفتگو کے بعد وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ مغرب اگرچہ اس بحران کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کسی بھی دوسری صورتِ حال کے لیے مکمل تیار ہے۔
دونوں صدور کے درمیان تقریباً ایک گھنٹہ طویل ٹیلی فونک گفتگو ایسے موقع پر ہوئی جب ایک روز قبل ہی قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سلیوان نے خبردار کیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق روس بیجنگ میں جاری ونٹر اولمپکس کے خاتمے سے پہلے یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔ ونٹر اولمپکس 20 فروری کو ختم ہوں گے۔روس اگرچہ یوکرین پر حملے کے ارادے کی نفی کرتا آیا ہے۔ لیکن اس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے جس میں وہ مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمسایہ ملک بیلاروس میں روسی فوج کی مشقیں بھی جاری ہیں جس کی وجہ سے یوکرین تین طرف سے گھر چکا ہے ۔
