اسلام آباد: پاکستان کے ایک معروف و بیباک صحافی مطیع اللہ جان ، جنہیں اسلام آباد کی بھیڑ بھاڑ والے علاقہ میں ایک ویمن کالج کے باہر سے دن دہاڑے نامعلوم مسلح افراد نے بندوق کی نال پر اغو اکر لیا تھا ،منگل کو رات دیر گئے گھر واپس پہنچ گئے۔
ان کی اغو ایا با الفاظ دیگر جبری گمشدگی کے حوالے سے جاری ایک ویڈیو نے سوشل میڈیا پر آگ لگا دی تھی اور بیشتر صارفین نے ان کے اغو اکے لیے پاکستان کی سراغرساں ایجنسی آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹہرایا تھا۔اور اس کے پس پشت ملک میں جبری گمشدگی کے بڑھتے واقعات کو کارفرما بتایا تھا۔
انہٰں اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کو کالج ڈراپ کر کے،جہاں وہ ملازمت کرتی تھیں،گھر واپس ہوہی رہے تھے کہ کئی گاڑیوں نے انہیں گھیر لیا۔ ان میں سے کئی گاڑیوں پر پولس تحریر تھا اور ایک ایمبولنس بھی تھی۔ اس واردات کو کالج بلڈنگ پر نصب سی سی ٹی وی کیمرے نے اپنے اندر قید کر لیا اور اس کے فوٹیج سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا۔
دریں اثنا مطیع اللہ کے گھر والوں نے ان کی گھر واپسی کی تصدیق کر دی۔ان کے بھائی شاہد عباسی نے جو پیشہ سے وکیل ہیں، کہا کہ انہیں ایک گمنام فون آیا کہ اسلام آباد کے مغربی مضافاتی علاقہ فتح گنج پہنچو اور مطیع اللہ کا گھر لے جاؤ۔
عباسی نے بتایا کہ مطیع اللہ نے گھر والوں کو بتایا ہے کہ ان کو جن لوگوں نے اغوا کیا وہ انہیں ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور وہاں سے وہ انہیں ادھر ادھر گھماتے رہے اور پھر رات دیر گئے انہیں فتح گنج علاقہ میں پھینک کر فرار ہو گئے۔
مطیع اللہ کو توہین عدالت کے ایک کیس میں پیش ہونے سے ایک روز قبل اغو اکیا گیا۔ انہوںنے عدالت عالیہ کے ایک فیصلہ پر تنقید کی تھی جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مطیع اللہ جان کے علاوہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر دیا تھا۔
اورسماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اعلی عدلیہ کے ججز کے خلاف ’توہین آمیز‘ الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں جاری نوٹس پر ہی بدھ کے روز سماعت ہونا تھی اور اس میں مطیع اللہ کو عدالت میں حاضر ہونا تھا۔
