Journalists, Opposition leaders condemn I-T raids on Dainik Bhaskar, Bharat Samacharتصویر سوشل میڈیا

نئی دہلی : ملک کے معروف میڈیا کمپنی دینک بھاسکر گروپ اور بھارت سماچار کے دفاتر پر محکمہ انکم ٹیکس نے چھاپے مارے۔ پورے معاملے کی جانکاری رکھنے والے ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ چھاپے ٹیکس چوری کے معاملوں کی جانچ کے لیے کی گئی ہے۔ تاہم آئی ٹی کی جانب سے یہ اطلاع فراہم نہیں کی گئی ہے کہ یہ چھاپے ماری کس معاملوں میں کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی نہیں بتایا گیا ہے کہ کن کن دفاتر میں ریڈ ڈالی گئی ہے۔ لیکن موصول اطلاع کے مطابق محکمہ انکم ٹیکس کی ٹیم نے یہ چھاپے دہلی، گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور راجستھان میں موجود دینک بھاسکر گروپ کے دفاتر اور مالکان کے گھروں پر مارے ہیں۔چھاپوں کے دوران سینٹرل ریزرو پولس فورس (سی آر پی ایف) اور متعلقہ ریاستوں کے پولس اہلکار انکم ٹیکس افسران کو تحفظ دینے کے لیے ٹیموں کے ہمراہ تھے۔واضح ہو کہ ان دونوںمیڈیا گروپوں نے ملک میں کوویڈ19- کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لیے ناقص انتظامات پر حکام کو سخت ہدف تنقید بنایا تھا۔اور حکام کے ناکامیوں اور اس دوران عوام کی پریشانیوں، مالی مشکلات اور دیگر دقتوں کے حوالے سے متعدد خبریں شائع کی تھیں۔

کانگریس کے قومی ترجمان رندیپ سورجے والا نے ٹوئٹ کیا کہ “ریڈ جیوی جی، پریس کی آزادی پر بزدلانہ حملہ! آپ “ریڈ راج” کے ذریعہ جمہوریت کی آواز کو نہیں دبا سکتے ہیں۔ راجستھان کے وزیراعلی اشوک گہلوت نے ٹویٹ کرکے لکھا ہے کہ ‘دینک بھاسکر اخبار اور بھارت سماچار نیوز چینل کے دفاتر پر انکم ٹیکس کا چھاپہ میڈیا کو دبانے کی کوشش ہے۔دینک بھاسکرپرچھاپے پر انوراگ ٹھاکرنے کہاہے کہ ہم اس پر پارلیمنٹ میں بھی جواب دیں گے۔ انہوں نے کہاہے کہ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے جو معلومات دی جارہی ہیں وہ ضروری نہیں کہ وہ درست ہوں۔ کل صبح کئی شہروں میں ٹیکس چوری کے الزام میں انکم ٹیکس ٹیموں نے اترپردیش میں میڈیا گروپ دینک بھاسکر اور ایک نیوز چینل پر چھاپہ مارا۔ جیسے ہی اہم ذرائع ابلاغ پر چھاپے مارے جانے لگے ، اپوزیشن جماعتوں نے سوشل میڈیا پر حکومت پر حملہ کرنا اور ان کی مذمت شروع کردی۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر انوراگ ٹھاکر نے حکومت کے اس عمل کا جواب دیا۔انوراگ ٹھاکر نے کابینہ کی بریفنگ میں نامہ نگاروں کوبتایا ہے کہ ایجنسیاں اپنا کام کرتی ہیں ، ہم ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی واقعے کے بارے میں اطلاع دینے سے پہلے کسی کو حقائق جاننا پڑتا ہے۔ بعض اوقات معلومات کا فقدان الجھن پیدا کرتاہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *