نئی دہلی: (اے یوایس)مودی حکومت کے 4 وزرءیوکرین سے ملحق ممالک میں موجود ہیں اور ہندوستانی طلبا کو واپس بھیجنے کے لیے مبینہ طور پر انتظام کر رہے ہیں۔ اس دوران ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں مرکزی وزیر برائے شہری ہوابازی جیوترادتیہ سندھیا ہندوستانی طلبا سے بات کر رہے ہیں۔ لیکن اسی دوران وہاں موجود رومانیہ کے میئر انھیں ٹوکتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ ان طلبا کے رہنے اور کھانے کا انتظام ہم نے کیا ہے، آپ نے نہیں۔ آپ صرف اپنی بات کیجیے۔ اس پر سندھیا تھوڑا سبکی محسوس کرتے ہیں اور پھر چڑچڑا کر بولتے ہیں کہ ’مجھے کیا بولنا ہے یہ میں طے کروں گا۔“ اس جواب پر میئر پھر بولتے ہیں کہ ”آپ اپنی بات کیجیے۔“ رومانیہ کے میئر کی بات پر ہندوستانی طلبا تالی بجا کر ان کی بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔اس بات چیت کے دوران سندھیا تھوڑا جزبز ہوجاتے ہیں اور سبکی محسوس کرتے ہیں اور پھر اپنی جھینپ مٹانے کے لیے آخر میں کہتے ہیں میں آن ریکارڈ رومانیہ کے افسران کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے طلبا کی مدد کی۔ اس ویڈیو پر لوگ طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا ہے کہ جس طرح سندھیا نے تکبر میں رومانیہ کے افسر سے بات کی ہے، اس سے بچوں کو آگے مدد ملنے میں تکلیف ہو سکتی ہے۔اس درمیان نیوز چینل این ڈی ٹی وی نے ہندوستان واپس آنے والے طلبا سے بات کی۔ ایک طالبہ نے بتایا کہ یوکرین کی سرحد سے نکلنے کے بعد تو وہ ہندوستان آنے کی کوئی بھی فلائٹ خود ہی پکڑ سکتے تھے ۔ اس طالبہ نے کہا کہ ہندوستان جانے کا ٹکٹ تو محض 30 ہزار کا ہے، اگر ہمارے والدین لاکھوں روپے خرچ کر پڑھنے کو بھیج سکتے ہیں تو اس ٹکٹ کا خرچ بھی اٹھا لیتے۔
اس نے کہا کہ اگر جنگ زدہ علاقے سے نکالنے میں ہماری مدد کی جاتی تو کوئی بات تھی۔دوسری طرف کانگریس لیڈر رندیپ سنگھ سرجے والا نے بھی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یوکرین سے لوٹے طلبا ہی بی جے پی حکومت کی پی آر مشینری کی قلعی کھول رہے ہیں۔ ویڈیو میں ایک ہندوستانی طالب علم کہہ رہا ہے کہ اب وزیر ہمیں پھول دے رہے ہیں۔ لیکن جب ضرورت تھی تو حکومت نے مدد نہیں کی۔ اگر صحیح سے مدد کی ہوتی تو اب پھول دینے کی نمائش کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔اسی دوران ینگ زدہ ملک یوکرین سے جو طلبا بخیر و عافیت ہندوستان پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ان کی آمد کے موقع پر نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایر پورٹ پر ان طلبا اور ان کے والدین کے چہرے قابل دید تھے۔دونوں کے چہروں سے خوف و گھبراہٹ کی لہریں غائب ہوتی اور ان کی جگہ مسکراہٹ اور اطمینان کی لہریں جوش مارتی دکھائی دے رہی تھیں۔ کیونکہ وہاں موجود والدین ٹرمنل 3سے نمودار ہونے والے طلبا کو اچک اچک کر دیکھ رہے تھے اور ان میں اپنے لخت جگر کو تلاش کر رہے تھے اور لخت جگر نظر آتے ہی مارے خوشی کے ہوا میںہاتھ لہرا لہرا کر اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتے۔مجموعی طور پر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یوکرین سے واپس لوٹے طلبا کو ہوائی اڈے سے نکلتے دیکھنے کی منظر کشی کی جائے تو مایوسی اور راحت بھرے چہروں کا ایک سیلاب سا نظر آرہا تھا ۔ ٹرمینل-3 پر جب بے چین والدین نے دروازے کے اِس طرف سے اپنے بچوں کو باہر آتے دیکھا تو مانو ایک لمحہ کو وہ اس فکر سے بے خبر ہو گئے جو یوکرین سے لمحہ لمحہ آتی خبروں سے پیدا ہو رہی ہے۔ جو طلبا واپس لوٹے، ان میں سے بیشتر یوکرین کے سرحدی علاقوں میں واقع میڈیکل کالجوں میں پڑھائی کر رہے تھے۔ اسی لیے انھیں مولودوا سرحد پار کر رومانیہ میں داخل ہونے میں کچھ آسانی ہوئی۔ رومانیہ سے ہی ان لوگوں نے ہندوستان کے لیے پرواز بھری۔ دوپہر تقریباً 12.30 بجے آئے 200 طلبا میں سے بیشتر نے اپنی واپسی کے لیے 26 فروری کو کالج چھوڑ دیا تھا، لیکن وہ 28 فروری تک سرحد پار نہیں کر پائے تھے۔
انہی میں 19 سال کا رِشیت بھی تھا جس نے ایوانو-فرینکوئسک نیشنل میڈیکل یونیورسٹی سے ابھی صرف دو سیمسٹر ہی پورے کیے تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ انھیں یوکرین میں ہندوستانی سفارتخانہ سے کوئی مدد نہیں ملی۔ اس نے بتایا کہ ”وہ صرف ایڈوائزری جاری کر رہے تھے اور ہمیں سرحد پر جانے کو کہہ رہے تھے۔ آخر ہم کیسے سرحد پہنچ جاتے؟ ہر کچھ گھنٹوں کے بعد ہمیں گولہ باری کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اور ہمیں اپنی جان کا ہمیشہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا۔“بہت سے طلبا نے مقامی لوگوں کی مدد لے کر بسوں کا انتظام کیا اور رومانیہ سرحد پہنچے۔ طلبا نے بتایا کہ ان کے سینئرس نے تقریباً 8 بسوں کا انتظام کیا تھا جس میں تقریباً 1000 طلبا بارڈر تک پہنچ پائے۔ رکشت نے بتایا کہ ”ہم سب کو رومانیہ بارڈر تک پہنچنے کے لیے بسوں کا کرایہ ادا کرنا پڑا۔ وہاں سے ہمیں ایک اور بس کا انتظام کر کے ائیرپورٹ جانا پڑا۔ ہندوستانی سفارتخانہ کے لوگ رومانیہ بارڈر پر تھے ہی نہیں۔ ہم میں سے کئی کی تو پٹائی بھی کی گئی اور کئی بار ہمیں ایسا بھی لگا کہ شاید ہم زندہ واپس نہیں جا پائیں گے۔ میں خوش ہوں کہ کسی طرح اپنے گھر پہنچ گیا ہوں۔“ رکشت ہماچل پردیش کا رہنے والا ہے اور اب دہلی سے ہماچل روانہ ہوگیا۔ان طلبا نے بتایا کہ بہت سی یونیورسٹیز نے فروری کے آخری ہفتہ تک آن لائن کلاس شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ ہندوستانی سفارتخانہ نے بھی 20 فروری تک کوئی سخت ایڈوائزری جاری نہیں کی تھی کہ ہندوستانی طلبا یوکرین سے جانے والی کمرشیل چارٹر فلائٹس سے واپس چلے جائیں۔ 22 فروری کو ہندوستانی سفارتخانہ نے طلبا کو مخاطب کرتے ہوئے ایک ایڈوائزری جاری کی کہ طلبا یونیورسٹی کی ہدایات کا انتظار نہ کریں اور یوکرین چھوڑ دیں۔ 24 فروری کو یوکرین نے اپنے ایئراسپیس کو بند کر دیا اور تب تک روسی افواج نے حملہ شروع کر دیا تھا۔ اس کے سبب ایئر انڈیا کی ایک فلائٹ واپس بھی چلی گئی۔ محمد عدنان اوڈیسا نیشنل میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس چوتھے سال کا اسٹوڈنٹ ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یوکرین میں ہندوستانی سفارتخانہ کو فون کر رہے تھے، لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ عدنان کو بھی اپنے ہی دم پر بس کا انتظام کر مولودوا بارڈر پہنچنا پڑا جہاں سے دوسری بس پکڑ کر ہوائی اڈے پہنچا۔ اس نے بتایا کہ طلبا نے آپس میں پیسے جمع کر بس کا کرایہ ادا کیا۔
عدنان نے بتایا کہ ”ہم صرف اس لیے زندہ واپس آ گئے کیونکہ یوکرین ور رومانیہ دونوں ہی ممالک میں کچھ اجنبی لوگوں نے ہماری مدد کی۔ بہت سے لوگوں نے ہمیں کھانا دیا، پانی دیا اور اپنے ٹوائلٹ استعمال کرنے کی چھوٹ دی۔ کئی لوگوں نے و ہمیں اپنے گھر میں سونے کی بھی اجازت دی۔ ہمارے کچھ ساتھیوں کے گھر والے ان ممالک میں تھے، خاص طور سے ہند نژاد لوگوں نے بہت مدد کی۔“ عدنان اتر پردیش کے بجنور کا رہنے والا ہے اور دہلی سے گھر کے لیے روانہ ہوا ہے۔عدنان نے بتایا کہ انھوں نے 25 فروری کو اوڈیسا سے مولودوا کا سفر شروع کیا۔ چونکہ بارڈر صرف 80 کلومیٹر دور ہے اس لیے وہ اسی دن وہاں پہنچ گئے۔ اور پھر وہ 27 فروری کو رومانیا میں داخل ہوئے۔ تب سے وہ رومانیا ایئرپورٹ کے پاس ہی ڈیرا ڈالے ہوئے تھے۔ فردوس اور زہرہ پر مصیبتوں کا پہاڑ 23 فروری کو ٹوٹا۔ انھوں نے بتایا کہ ”23 فروری کو جب ہم جاگے تو چاروں طرف دھواں پھیلا ہوا تھا۔ کوئی دو کلومیٹر دور ہی بمباری ہوئی تھی۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ یونیورسٹی نے بتایا کہ وہ 25 فروری کو بسوں کا انتظام کریں گے، لیکن پھر یہ بھی نہیں ہو پایا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے طور پر رومانیہ بارڈر پہنچنے کے لیے بسوں کا انتظام کیا۔ ہم سب کو بس کے لیے 1800 روپے فی کس ادا کرنے پڑے۔“جو بھی طلبا واپس آ رہے ہیں، ان میں سے بیشتر نے اپنا سامان اور بہت سے کاغذات وہیں چھوڑ دیے ہیں کیونکہ انھیں بمباری سے بچتے ہوئے بارڈر پہنچنا تھا۔ فردوس عالم نام کی طالبہ نے بتایا کہ حالانکہ انھوں نے بس کو بارڈر تک کے لیے بُک کیا تھا، لیکن صرف 15 کلومیٹر کے بعد ہی بس رک گئی۔ اس نے کہا کہ ”ہمیں پیدل چلنا پڑا۔ اور کوئی 4 گھنٹے میں ہم بارڈر پہنچ پائے۔ کئی دنوں تک گھر والوں سے بات نہیں ہو پائی کیونکہ بارڈر پار کرتے وقت وہاں انٹرنیٹ سہولت نہیں تھی۔ ہمیں موت کا ڈر تو تھا لیکن ہمیں پتہ تھا کہ ہمیں ہمت سے کام لیتے ہوئے بارڈر پار کرنا ہے۔“
