کابل:پاکستانی حکام کے اس مکرر دعوے کے بعد کہ ان کے ملک میں کیے جانے والے دہشت گرد انہ حملوں میں افغان شہری ملوث ہیں امارت اسلامیہ نے ایک بار پھر ان الزامات کی تردید کی۔امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کو اپنی سیکیورٹی صورتحال کو سوجھ بوجھ اور پوری احتیاط سے سنبھالے اور اپنے علاقے میں ہی اس کا حل تلاش کرے۔مجاہد نے مزید کہا کہ افغانستان کسی بھی ملک بالخصوص پڑوسی ممالک میں جنگ نہیں چاہتانیز افغانستان کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتی ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس نے ایک طویل جنگ لڑی ہے اور یہ اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک، خاص طور پر پڑوسی ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بننے دینا چاہتی۔بیان میں مزید کہا گیا کہ سال2022-23 کے دوران داعش کے 18 پاکستانی دہشت گرد ، جو دھماکے کر رہے تھے اور ہماری سرزمین پر حملے کر رہے تھے، افغانستان کے مختلف علاقوں میںمارے گئے جبکہ درجنوں زندہ پکڑے گئے۔ اس حوالے سے تمام دستاویزات اور شواہد ہمارے پاس ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کی حکومت نے پاکستان پر الزام تراشی کے بجائے اپنی سلامتی کے اقدامات کو مزید مضبوط کر دیا ہے۔ دریں اثناپاکستان کے انسانی حقوق کے وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے پاکستانی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ پاکستان میں لڑ رہے ہیں وہ افغانستان سے نہیں آتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہمارے اپنے لوگوں نے پچھلی حکومت کے دوران منظم عمل کے تحت افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی۔ مجھے ایران، سعودی عرب، چین اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے افغان قیادت کے خلوص پر یقین ہے۔ایک سیاسی تجزیہ کار نجیب رحمان شمل نے کہا کہ افغان شہریوں پر الزام نے ایک بار پھر افغان عوام سے پاکستان کی دشمنی ثابت کر دی ہے۔ تاہم پوری دنیا اس سے واقف ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے اور اسے فروغ دے رہا ہے۔