ڈاکٹر سیّد احمد قادری

آج5فروری یوم کشمیر ہے ۔ اس تعلق سے کچھ باتیں کشمیر کے ماضی اور حال کی ۔کشمیر جو کبھی جنّت ارضی تھا ،اب وہ مسلسل سیاست کے گرم تھپیڑوں سے آتشی چنار میں بدل گیا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے لئے زندگی ایک عذاب سی ہو گئی ہے۔سانسیں بھی پہروں کے درمیان لینے پر مجبور ہیں۔دنیا چیخ چیخ کر رہی ہے کہ یہاں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے،لیکن حاکم وقت کا ایک ہی رٹا رٹایا جملہ ہے کہ یہاں سب نارمل ہے۔ اگر سب کچھ نارمل ہے تو پھر آنے جانے پر اتنی پابندیاں کیوں ہیں۔کشمیر میں دم توڑتی انسانیت پر یوم کشمیر کے تعلق سے کچھ ہمدردی کر مرہم تو ہم رکھ ہی سکتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھاکہ کشمیر کا ذکر آتے ہی، جنّت ارضی کشمیر کی حسین وادیوں، مترنم جھرنوں،خوبصورت پہاڑوں،ہرے بھرے جنگلوں،جھلملاتی ندیوں، لہراتے شکارے اور نرم نرم روئی کے گالوں جیسی برف باری کی یادیں آتے ہی ذہن میں تازگی، نغمگی، شگفتگی اور دلفریبی کا شدید احساس ان لوگوں کے دلوں میں مچلنے لگتا ہے ،جن لوگوں نے اب سے دس بیس برس قبل ان حسین وادیوں کی سیر کیا ہے اور جن لوگوں کو جنت ارضی کی ان خوبصورت وادیوں کی سیر میسر نہیں ہوئی ، انھوں نے ’کشمیر کی کلی‘ ’جب جب پھول کھلے‘ او ر ’ آرزو‘ وغیرہ جیسی کشمیر کی حسین وادیوں پر بنی فلم کے توسط سے دیکھنے کے بعد ان کے دلوں میں ہمیشہ یہ آرزو دل میںانگڑایاں لیتی رہتی ہونگی کہ کاش مجھے بھی ایک بار ان خوبصورت وادیوں کی سیر کرنے کا موقع مل جائے۔ اس لئے کہ یہ کشمیر ہی ہے کہ جس کی رعنایوں سے متاثر ہو کر مغل بادشاہ جہانگیریہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ
گر فردوس بر روئے زمیں است ہمیں است و، ہمیں است و، ہمیں است

یعنی زمین پر اگرجنت ہے ، تو یہی ہے، یہی ہے، یہی ہے۔ کشمیر کے جنت نشان ہونے کا جہانگیر جیسے عظیم بادشاہ کو اس شدت سے احساس تھا کہ انھوں نے وہاں شالیمار باغ وغیرہ جیسے کئی ایسے اعلیٰ اور یادگارنمونے بنوائے کہ آج بھی انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔، پھر ہم محمد رفیع کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔ جن کی آواز کی سحر انگیزی ہر جوان دل کی دھڑکن بن کر کشمیر کی حسین وادیوں کی جانب اس طرح بلاتی ہے
ہر چہرہ یہاں چاند ہے،تو ہر ذرّہ ستارہ ٭ یہ واد کشمیر ہے، جنّت کا نظارہ

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر فرد و بشر کو اس بات کا شدت سے احساس رہا ہے کہ اگر زمین پر کوئی جنّت ہے ، تو وہ کشمیر ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے حسین نظاروں اور دلفریب مناظر سے حسن و عشق کی کرنیں بھی پھوٹتی ہیں ۔ جن پر درجنوں ناول، سینکڑوں افسانے اور نہ جانے کتنی نظموں اور غزلوں کا وجود سامنے آ چکا ہے۔ساتھ ہی ساتھ کشمیر کی وادیوں میںعشق و محبت پر مبنی بے شمار فلمیں بھی بن چکی ہیں ۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ کشمیر کی ان خوبصورت وادیوں اور حسین مناظر کی دلفریبیوں کی قدر نہیں کی گئی اور اس جنتّ ارضی کو ناعاقبت اندیشوں نے اپنے اپنے مفادات میں جہنم کا نمونہ بنا دیا ہے ۔کشمیر کے حسن کو شعلوں کی نذر کر دیا گیا ہے۔

کشمیر کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے۔ جس پر سینکڑوں کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ اس وقت یہ موقع نہیں ہے کہ میں اس کی پرانی تاریخ دہراؤں۔ لیکن یہ ضرور بتانا چاہونگا کہ جن تنازعات کے باعث یہ کشمیر تباہیوں کے دہانے پر ہے، اس کے ذمّہ دار وہ انگریز ہی ہیں ، جنھوں نے ہندوستا ن پر قبضہ جما کر اس کا سودا کرتے رہے اور اس کی شاندار روایات اور حسن کو مسخ کرتے رہے ۔ کشمیر ایک ایسا خوبصورت اور حسین علاقہ رہا ہے کہ ہر کے دل کی دھڑکن بنا رہا ہے ۔ ہر کی یہ خواہش رہی کہ ان حسین وادیوں پر اس کی ہی حکمرانی رہے۔یہی وجہ تھی کہ جب بھارت پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا ، تب ڈوگرہ کے راجہ گلاب سنگھ نے بھی یہ خواب دیکھا کہ کشمیر پر ان کی حکمرانی رہے۔چنانچہ اس راجہ نے انگریزوں سے کشمیر کا سودا کیا اور 1846 ءمیں 75 لاکھ روپے میں اس پورے خطہ کو خرید لیا اور اپنی حکمرانی قائم کر دی۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ کشمیر میں ہمیشہ سے اسلام مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ رہی ہے اور یہ بھی واضح رہے کہ یہاں اسلام، بابا نورالدین رشی اور بابابھلے شاہ کی تعلیمات اور روحانی قوتوں اور ان کے حسن اخلاق سے فروغ پایا ، جو امن و آشتی کے پیامبر بن کر یہاں آئے تھے ۔جن کی روحانی تعلیمات کے ہر مذہب کے لوگ اسیر رہے۔ بابا نورالدین رشی کشمیر کے لوگوں میں محبت، پیار، یکجہتی، اتحاد واتفاق کے مثال رہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کے مجموعہ کلام ” نور نامہ “ اور ”رشی نامہ“ کا کشمیر یوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے اور آج بھی انھیں لوگ عقیدت و احترام سے یاد کرتے ہیں ۔ اسی طرح لوگ بھلے شاہ کو بھی عقیدت و احترام کے ساتھ لوگ اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں ۔بابا بھلے شاہ کی روحانی تعلیم کا ہی یہ فیض تھا کہ اس سے متاثر ہو کر ایک زمانے میں یہاں کے بودھ راجہ، رنچن نے مذہب اسلام قبول کیا تھا او ر یہی راجہ رنچن، سلطان صدرالدین بن کر کشمیر کا پہلا مسلم حکمراں بنا تھا۔

1846 ءکشمیر کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے ۔ جب اس کا سودا انگریزوں نے ڈوگرہ کے راجہ گلاب سنگھ کے ساتھ کیا تھا ۔لیکن تقسیم ہند کے بعد اکتوبر 1947 ءکو مہاراجہ ہری سنگھ کی حکمرانی کے خلاف جدو جہد کرکے وہاں کی عوام نے بھارت کے ساتھ کئی شرائط کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ جس کا قصہ 18 اکتوبر 1947 ءکے ایک انگریزی روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز ‘ میں بہت تفصیل کے ساتھ سرورق پر شائع ہوا تھا ۔اسی طرح اکتوبر 1947 ءمیں ہی کشمیر کا کافی حصہ پاکستان میں چلا گیا۔ کشمیر کی اس تقسیم سے دونوں ملک ہند و پاک مطمئن نہیں ہوئے اور تنازعہ بڑھتا ہی گیا ۔ یہاں تک کہ 1948 ءمیں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی نوبت آ گئی ۔ لیکن یکم جنوری 1949 ءکو سلامتی کونسل نے اس معاملے میں مداخلت کی، اور منظور شدہ دو قرارداد کے تحت بھارت کو کشمیر سے افواج کے اخراج کے ساتھ ساتھ جلد رائے شماری کی تاکید کی گئی۔ لیکن رائے شماری نہیں ہوئی اور دوسری جانب پاکستان نے بھارت سے چھینے گئے علاقوں میں ”آزاد کشمیر “ نام سے ایک ریاست قائم کر دی ۔ اس درمیان 1960 ءمیں یہ بھی ہوا کہ ہند و پاک کے درمیان ایک معاہدہ کے تحت ستلج، بیاس اور راوی ندیوں سے پاکستان دستبردار ہو گیا ۔ لیکن کشمیر کا تنازعہ ختم نہیں ہوا ، یہاں تک 1965 ءمیں دونوں ملکوں کے درمیان ایک اور جنگ چھڑ گئی ۔

جس میں بہت ساری انسانی جانیں تلف ہوئیں۔پھر بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکا اور 1999 ءمیں کارگل جنگ بھی ہوئی ۔ کشمیر مسئلہ کو سلجھانے کے لئے بھارت اور پاکستان کے درمیان کئی بار مفاہمت کی باتیں بھی ہوئیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو، بینطیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف بھی اس مسئلہ کو دور کرنے کئی راؤنڈ کی گفتگو کے بعد ناکام ہو کر واپس چلے گئے ۔ سابق وزیر ا عظم اٹل بہاری باجپئی بھی امن کا پیغام لے کر بہت سارے فنکاروں کے ساتھ پاک دورہ کر چکے ہیں ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر جیسی خوبصورت سرزمین کے کسی بھی حصہ سے کوئی بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتا ہے ۔ جس کے باعث یہ وادی کشمیر ، جنّت کا نظارہ کی بجائے جہنم کا نمونہ بنتا جا رہا ہے ۔سیاسی بساط بچھا کر گزشتہ 5اگست 2019ءکو یہاں جو کچھ ہوا ۔ اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہاں کے سیاسی عدم استحکام ، فوجی مداخلت ،ان کی آمریت نے امن و امان قائم کرنے میں اب بھی کامیابی نہیں ملی ہے ۔ کشمیر کے لوگ غربت، بے روزگاری، ناخواندگی، بجلی بحران وغیرہ جیسے بنیادی مسئلے سے بہت پریشان ہیںلیکن ان مسائل کے حل کی جانب کوئی توجہ نہیں ۔ان کے دکھ درد، کرب اور گھٹن سے بے پرواہ سیاسی رہنما¿ اپنی اپنی سیاست کی بساط پر شہ اور مات کا کھیل ، کھیل رہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کو کشمیریوں کے ساتھ مل کر، انھیں اعتماد میں لے کر مناسب اور باوقار طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ کشمیری نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ مخلصانہ اور ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جائے ۔ آئے دن ہونے والے ا ن ہنگاموں میں ان کا مستقبل جس طرح تباہ و برباد ہو رہا ہے ، وہ وقت گزر جانے کے بعد واپس نہیں آئیگا ۔ انھیں انسان سمجھا جائے ، ان کی بنیادی ضرورتوں کو ہر ممکن طریقے سے پورا کرنے کی عملی کوشش ہو۔ اس لئے کہ ان کی زندگی کے بھی کچھ خواب ہونگے ۔ انھیں در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے نہ چھوڑا جائے ۔ کسی بھی قوم کو یہ بات کیسے گوارہ ہو سکتی ہے کہ ان کے بھائی ، ان کی بہنیں انصاف اور مدد کی بھیک مانگنے ملک کے طول و عرض میں در در بھٹکتے پھریں ۔ ہر حساس شخص کی نظر اس وقت شرم سے جھک جاتی ہے جب بھوک اور پیاس سے نڈھال کشمیر کی نو خیز دوشیزائیںاس کے دروازے پر ہاتھ پھیلائے کھڑی نظر آتی ہیں ۔

کشمیریوں کے دکھ ،درد،غم، اذیت،بربریت اور ہر سطح پر ہونے والے ان کے استحصال کو جاننے، سمجھنے اور ان کے زخموں پر ہمدردی اور محبت کا مرہم رکھتے ہوئے، ان کے مداوا کے لئے سیاسی اور سماجی سطح پر غور و فکر کرنے کی سنجیدہ کوشش ہو تو مجھے یقین ہے کہ مسئلے کا حل ضرور نکلے گا ، شرط یہ ہے کہ کوشش سیاسی مفادات سے اُوپر اٹھ کر انسانی اقدار کے ساتھ ہو ۔ سیاسی رہنماوں کو اس بات کا خیال ہونا چاہئے کہ منافرت اور فرقہ واریت سے بہت ساری انسانی زندگیاں تباہ و برباد ہو رہی ہیں ، جس سے دونوں ملک کو نقصان ہو رہا ہے اور فائدہ کوئی اور ملک اٹھا رہا ہے ۔ یہ وہ ملک ہے جو کسی بھی قیمت پر نہیں چاہتا کہ ان دونوں پڑوسی ملکوں میںدوستی قائم رہے۔اگر دونوں ملکوں کے گلے شکوے ختم ہو جائیں تو بلا شبہ دونوں پڑوسی ملک اپنے اپنے ملک میں انسانیت اور انسانی اقدار کی ایک نئی تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *